ثمینہ سید کے تمام مواد

14 غزل (Ghazal)

    قحط سالی سی قحط سالی ہے

    قحط سالی سی قحط سالی ہے دل تری یاد سے بھی خالی ہے دیکھ تو آسماں کے بستر پر چاند میری طرح سوالی ہے خواب دیکھوں تو کس طرح دیکھوں نیند اس نے مری چرا لی ہے ہم نے بجھتے ہوئے دیے کی لو تیز آندھی میں پھر اچھالی ہے سچ تو یہ ہے کہ کار وحشت میں ہم نے یہ عمر ہی گنوا لی ہے ہجر کی دوپہر میں ...

    مزید پڑھیے

    محبت اور خوشبو کا نگر تقسیم ہو جائے

    محبت اور خوشبو کا نگر تقسیم ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو گھر کا شجر تقسیم ہو جائے لہو روتی ہوئی آنکھیں لہو روتی ہی رہتی ہیں ہوس کے ہاتھ جب پرکھوں کا گھر تقسیم ہو جائے کبھی بھی آگ کی فصلیں یہاں پر اگ نہیں سکتیں محبت سارے عالم میں اگر تقسیم ہو جائے اداسی کے گھنے جنگل میں رستے جا نکلتے ...

    مزید پڑھیے

    روش روش پہ پھول کھلاتے گلزاروں کی بات کریں

    روش روش پہ پھول کھلاتے گلزاروں کی بات کریں چھوڑ گئے جو تنہا ہم کو ان پیاروں کی بات کریں سرد روی کے جھونکے تن کو چھید رہے ہیں مدت سے آؤ ناں مل کر دروازوں سے دیواروں کی بات کریں خاک نشینی ٹھیک ہے لیکن کبھی کبھی دل کرتا ہے دور فضا میں اڑتے جائیں کہساروں کی بات کریں اس دن سوچ حنائی ...

    مزید پڑھیے

    اس ریاضت کا مری جان صلہ کچھ بھی نہیں

    اس ریاضت کا مری جان صلہ کچھ بھی نہیں عشق کا کھیل شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں ضبط کے کونسے زینے پہ میں آ پہنچی ہوں ہاتھ اٹھے ہیں مگر حرف دعا کچھ بھی نہیں اب تو خورشید بکف ہم کو ابھرنا ہوگا ان اندھیروں میں فقط ایک دیا کچھ بھی نہیں ایسے لگتا تھا کہ دنیا ہی اجڑ جائے گی خوف تھا چاروں ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو آنکھوں میں چھپ کے بیٹھا ہے

    وہ جو آنکھوں میں چھپ کے بیٹھا ہے ایسے لگتا ہے میرے جیسا ہے راستے میں رکاوٹیں کیسی میں نے یہ پانیوں سے سیکھا ہے وہ جو پھر لوٹ کر نہیں آیا میرے پلو میں اس کا وعدہ ہے آدھا چھپتا ہے آدھا دکھتا ہے چاند بالکل تمہارے جیسا ہے خود نہ مرتا نہ مرنے دیتا ہے پیار کتنا حسین جذبہ ہے میری ...

    مزید پڑھیے

تمام

3 نظم (Nazm)

    یقین

    تو شہر میں نہیں ہے تو شہر جاں کے اندر عالم ہے زلزلوں کا وحشت بچھی ہے ہر سو آنکھوں کی پتلیوں پہ یادیں تمہاری آنسو بن کے رکی ہوئی ہیں اک بھیڑ ہے اگرچہ آنکھوں کے آگے ہر سو خود کو میں دیکھ کتنی تنہا سی لگ رہی تھی پھر ایک دم سے مجھ کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا برفاب کر گیا تو سرگوشیوں میں خود ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے ہجر کے موتی

    تمہارے ہجر کے موتی ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں عجب اک خوف سے ہر دم کھلی رکھتی ہوں میں آنکھیں گرے تو ٹوٹ بکھریں گے تمہارے ہجر کے موتی ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں یہاں گنجان رستوں پر یہاں پر پیچ گلیوں میں جدائی رقص کرتی ہے چلے آؤ تو اچھا ہے کہ اب تو تھک چکیں آنکھیں تمہارے ہجر کے موتی ابھی ...

    مزید پڑھیے

    اسے کہنا

    خزاں کے زرد پتوں کا کوئی سایہ نہیں ہوتا بہت بے مول ہو کر جب زمیں پر آن گرتے ہیں تو یخ بستہ ہوائیں بھی انہی کو زخم دیتی ہیں اسے کہنا کہ مجھ کو بھول کر بے مول نہ کرنا

    مزید پڑھیے