وہ جو آنکھوں میں چھپ کے بیٹھا ہے

وہ جو آنکھوں میں چھپ کے بیٹھا ہے
ایسے لگتا ہے میرے جیسا ہے


راستے میں رکاوٹیں کیسی
میں نے یہ پانیوں سے سیکھا ہے


وہ جو پھر لوٹ کر نہیں آیا
میرے پلو میں اس کا وعدہ ہے


آدھا چھپتا ہے آدھا دکھتا ہے
چاند بالکل تمہارے جیسا ہے


خود نہ مرتا نہ مرنے دیتا ہے
پیار کتنا حسین جذبہ ہے


میری آنکھیں ثمینہؔ روشن ہیں
وہ مرے خواب میں جو آیا ہے