تمہارے ہجر کے موتی

تمہارے ہجر کے موتی
ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں
عجب اک خوف سے ہر دم کھلی رکھتی ہوں میں آنکھیں
گرے تو ٹوٹ بکھریں گے
تمہارے ہجر کے موتی
ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں
یہاں گنجان رستوں پر
یہاں پر پیچ گلیوں میں
جدائی رقص کرتی ہے
چلے آؤ تو اچھا ہے
کہ اب تو تھک چکیں آنکھیں
تمہارے ہجر کے موتی
ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں
یہاں کچھ بھی نہیں بدلا
اسی پہلے طریقے سے تمہاری منتظر آنکھیں
لگی رہتی ہیں چوکھٹ سے
کوئی آہٹ نہیں ہوتی
کوئی سایہ نہیں دکھتا
ذرا سی جھرجھری لے کر
میں آنکھیں کھول دیتی ہوں
عجب اک خوف سے ہر دم
کھلی رکھتی ہوں میں آنکھیں