ثمینہ سید کی نظم

    یقین

    تو شہر میں نہیں ہے تو شہر جاں کے اندر عالم ہے زلزلوں کا وحشت بچھی ہے ہر سو آنکھوں کی پتلیوں پہ یادیں تمہاری آنسو بن کے رکی ہوئی ہیں اک بھیڑ ہے اگرچہ آنکھوں کے آگے ہر سو خود کو میں دیکھ کتنی تنہا سی لگ رہی تھی پھر ایک دم سے مجھ کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا برفاب کر گیا تو سرگوشیوں میں خود ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے ہجر کے موتی

    تمہارے ہجر کے موتی ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں عجب اک خوف سے ہر دم کھلی رکھتی ہوں میں آنکھیں گرے تو ٹوٹ بکھریں گے تمہارے ہجر کے موتی ابھی پلکوں پہ رکھے ہیں یہاں گنجان رستوں پر یہاں پر پیچ گلیوں میں جدائی رقص کرتی ہے چلے آؤ تو اچھا ہے کہ اب تو تھک چکیں آنکھیں تمہارے ہجر کے موتی ابھی ...

    مزید پڑھیے

    اسے کہنا

    خزاں کے زرد پتوں کا کوئی سایہ نہیں ہوتا بہت بے مول ہو کر جب زمیں پر آن گرتے ہیں تو یخ بستہ ہوائیں بھی انہی کو زخم دیتی ہیں اسے کہنا کہ مجھ کو بھول کر بے مول نہ کرنا

    مزید پڑھیے