محبت اور خوشبو کا نگر تقسیم ہو جائے
محبت اور خوشبو کا نگر تقسیم ہو جائے
کہیں ایسا نہ ہو گھر کا شجر تقسیم ہو جائے
لہو روتی ہوئی آنکھیں لہو روتی ہی رہتی ہیں
ہوس کے ہاتھ جب پرکھوں کا گھر تقسیم ہو جائے
کبھی بھی آگ کی فصلیں یہاں پر اگ نہیں سکتیں
محبت سارے عالم میں اگر تقسیم ہو جائے
اداسی کے گھنے جنگل میں رستے جا نکلتے ہیں
فضاؤں میں نیا جب ایک ڈر تقسیم ہو جائے
کبھی جو یاد کرتی ہوں تری قربت کے لمحوں کو
مری سانسوں تلک اس کا اثر تقسیم ہو جائے
مری ماں کی دعاؤں کا ثمینہؔ معجزہ دیکھو
مرے پیروں میں آتے ہی بھنور تقسیم ہو جائے