Salman Saeed

سلمان سعید

سلمان سعید کی غزل

    سبھی کچھ دیکھ کر اندھے بنیں گے

    سبھی کچھ دیکھ کر اندھے بنیں گے ہمارے حق میں سب گونگے بنیں گے ہمارے بعد یہ ہم کو یقیں ہے ہمارے نام سے کوچے بنیں گے جئے ہم روشنی بن کر ہمیشہ مرے تو مر کے بھی تارے بنیں تو اس کے غم سے ہم کو دور مت کر اسی کے غم میں ہم تیرے بنیں گے چلو دونوں بچھڑ جائیں یہیں پر بچھڑ کر کچھ نئے رشتے ...

    مزید پڑھیے

    اول اول تو یہ خوابوں کی طرح ہوتا ہے

    اول اول تو یہ خوابوں کی طرح ہوتا ہے عشق پھر دوسرے کاموں کی طرح ہوتا ہے پہلے فلمیں بھی حقیقت کی طرح ہوتی تھیں اب حقیقت میں بھی فلموں کی طرح ہوتا ہے کام کرتا ہے مسلسل کبھی تھکتا ہی نہیں باپ گویا کہ مشینوں کی طرح ہوتا ہے میں ترے ہجر میں اس درجہ مگن ہوتا ہوں میرا دن بھی مری راتوں کی ...

    مزید پڑھیے

    ہم تو پانی ہیں کسی شکل بھی ڈھل سکتے ہیں

    ہم تو پانی ہیں کسی شکل بھی ڈھل سکتے ہیں اک ذرا آنچ دکھا دو تو ابل سکتے ہیں روز اول سے ہے مٹی کا سہارا مٹی آپ بیساکھیوں سے کتنا سنبھل سکتے ہیں آپ کے ہاتھ میں ہے مجھ سے تعلق کا ریموٹ آپ چاہیں تو یہ چینل بھی بدل سکتے ہیں

    مزید پڑھیے

    ترے غم میں جو سلگی جا رہی ہے

    ترے غم میں جو سلگی جا رہی ہے مجھے سگریٹ وہ پیتی جا رہی ہے منایا جا رہا ہے غم تمہارا پرانی فلم دیکھی جا رہی ہے جو ڈیپی لگ گئی نمبر پہ تیرے وہ صبح و شام دیکھی جا رہی ہے جہاں باتوں میں کٹنی چاہیے تھی وہاں پر بات کاٹی جا رہی ہے نگاہوں سے وہ اوجھل ہو رہا ہے کوئی گاڑی ہے چھوٹی جا رہی ...

    مزید پڑھیے

    وہ بھی آخر رفتہ رفتہ اس کے جیسا ہو گیا

    وہ بھی آخر رفتہ رفتہ اس کے جیسا ہو گیا جس نے دنیا جتنی دیکھی اتنا دنیا ہو گیا خون سے مظلوم کے ہو تو گئے روشن چراغ روشنی ایسی ہوئی پھر شہر اندھا ہو گیا ٹوٹ کر برباد اب ہوگا نہیں اس کا وجود تجربے کی آگ میں تپ کر وہ سونا ہو گیا عشق کہتا ہے ابھی دو چار سانسیں اور ہیں حسن کہتا ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    درد جب داستاں بناؤں گا

    درد جب داستاں بناؤں گا آپ کو ہم زباں بناؤں گا پہلے رکھوں گا اس زمیں پہ قدم پھر میں اک آسماں بناؤں گا اس نے خط میں بنائیں ہیں آنسو میں بھی اب سسکیاں بناؤں گا اپنے کمرے سے مشورہ کر کے خامشی کی زباں بناؤں گا تیرے ہونٹوں سے سرخیاں لے کر دیکھنا تتلیاں بناؤں گا جس میں لیلیٰ ہی ...

    مزید پڑھیے

    عشق مذہب کو مانتا ہی نہیں

    عشق مذہب کو مانتا ہی نہیں عشق کا کوئی دیوتا ہی نہیں شرط دنیا سے لگ گئی ورنہ میں ترا نام پوچھتا ہی نہیں اس کو کچھ یاد آ گیا ہوگا ورنہ وہ فون کاٹتا ہی نہیں مطمئن ہوں میں سوچ کر تجھ کو تجھ سے آگے میں سوچتا ہی نہیں رات دن کو بنا لیا میں نے میں کبھی رات کاٹتا ہی نہیں یہ نیا جسم تو ...

    مزید پڑھیے

    غموں کی لسٹ میں جو انتہا میں رکھا گیا

    غموں کی لسٹ میں جو انتہا میں رکھا گیا ہمارے واسطے وہ ابتدا میں رکھا گیا عجیب ڈھنگ سے مجھ کو ملی ہے آزادی پرندہ پنجرے میں پنجرہ ہوا میں رکھا گیا وہ غم گزارا گیا ہے کہ دل ہی جانتا ہے یہ وہ نگر ہے جسے کربلا میں رکھا گیا ہمارے کھیل سے یہ کھیل ہی پلٹ جاتا اسی لیے تو ہمیں ایکسٹرا میں ...

    مزید پڑھیے

    یہ پانی دیکھ کر حیرت زدہ ہے

    یہ پانی دیکھ کر حیرت زدہ ہے کہ دل مچھلی کا اس سے بھر گیا ہے ہماری آنکھ میں آنسو نہیں ہیں بہانے کو فقط اب خوں بچا ہے ہمارے کھیل کی گڑیا تمہی ہو تمہارے کھیل کا گڈا نیا ہے جسے مجھ سے نہیں ہے کوئی مطلب میں سب سے بولتا ہوں وہ مرا ہے اگر کانوں کی بیساکھی ہٹا دو تو گونگا بھی برابر ...

    مزید پڑھیے