وہ بھی آخر رفتہ رفتہ اس کے جیسا ہو گیا

وہ بھی آخر رفتہ رفتہ اس کے جیسا ہو گیا
جس نے دنیا جتنی دیکھی اتنا دنیا ہو گیا


خون سے مظلوم کے ہو تو گئے روشن چراغ
روشنی ایسی ہوئی پھر شہر اندھا ہو گیا


ٹوٹ کر برباد اب ہوگا نہیں اس کا وجود
تجربے کی آگ میں تپ کر وہ سونا ہو گیا


عشق کہتا ہے ابھی دو چار سانسیں اور ہیں
حسن کہتا ہے کہ اٹھ مقبول سجدہ ہو گیا


دور تجھ سے ہو کے کچھ سوچا نہیں جاتا سعیدؔ
ایسا لگتا ہے کہ میرا ذہن اغوا ہو گیا