Salman Haider

سلمان حیدر

سلمان حیدر کی نظم

    جنون

    فضائیں تھک چکی ہیں جسم ڈھوتی گاڑیوں کی سسکیاں اور سائرن کے بین سن سن کے در و دیوار کے نتھنے جھلسنے لگ گئے بارود کی بو سے بدن کے چیتھڑے چن چن کے اب بیزار ہیں گلیاں وہ ملبہ آگ کا چاٹا ہوا ملبہ اکٹھا کرتے کرتے خاک داں تنگ آ چکے ہیں مگر انسان اکتاتا نہیں ہے

    مزید پڑھیے

    خواہش

    ماہ و سال سے تھوڑا ہٹ کے دشت اور در سے دور ہجر وصال کی زد سے باہر رات اور دن کے پار کبھی فرصت سے مل یار تن کی مٹی جھاڑ دے من مندر کی کھڑکی کھول آوازوں کے جنگل میں کبھی چپ کی بولی بول میری آنکھ کے درپن میں دیکھ اپنا روپ سروپ میرے عشق کے گہنے سے کبھی اپنا آپ سنوار کبھی فرصت سے مل ...

    مزید پڑھیے

    حویلی

    وقت کی ریت کے کچھ آخری ذرے ہیں مری مٹھی میں تن پہ ہر بیتے ہوئے پل کے لیے اک سلوٹ ذہن کے گوشوں میں یادوں کی نمی اور دیواروں پہ دیمک زدہ لمحوں کو لئے چوکھٹوں میں کئی دھندلے چہرے صحن ماضی میں کئی گمشدہ نسلوں کی وراثت کا امیں ایستادہ کوئی بوڑھا برگد فرش پر وقت کے پڑتے ہوئے پیلے ...

    مزید پڑھیے

    ابلاغ: بغیر لفظوں کے ایک نظم

    ایک بے چہرہ خواب ایک بے نام خوشبو میں لپٹا ہوا ایک خوشبو کہ جس نے کوئی رنگ پہنا نہ ہو ایک خاموش لے ایک لے میرے کانوں میں رس گھولتی اپنی عریانیوں میں لپیٹا ہوا ایک سر ایک سر جس کی بنتر میں آواز کی گانٹھ آئی نہ ہو جس کے شفاف تن پر کسی لفظ کا کوئی گہنا نہ ہو لفظ سے ماورا ایک نغمہ کسی نے ...

    مزید پڑھیے

    دیوتا

    میں جانتا ہوں تمہیں مری آرزو نہیں ہے طلب مری آنکھ میں مچل کے ہی اتنی ارزاں ہوئی ہے ورنہ میں اپنے دامن میں ذات کی کرچیاں سمیٹے کھنکتی مسکان بھیک لینے تمہارے رستے میں روز اپنا سوال آنکھوں میں لے کے بیٹھوں یہ خو مری تو نہیں تھی جاناں میں جانتا ہوں تم اس قدر دیوتا تو ہو ہی کہ دل کے ...

    مزید پڑھیے

    محبت روایت نہیں ہے

    محبت وہ پامال رستہ نہیں ہے کے آتے ہوئے موڑ کی ہر خبر کرم خوردہ کتابوں کے بوسیدہ صفحوں کی دھندلی لکیروں میں چھپ چھپ کے عریاں ہوئی ہو محبت کی تصویر کس نے بنائی محبت کے سفر کا سفر نامہ کس نے لکھا ہے اگر کوئی اک گمشدہ سی صدی میں ادھر سے گزر بھی گیا تھا تو اس کو خبر کیا کوئی بیتا موسم ...

    مزید پڑھیے

    سن باتھ

    تمہارے ہاتھ کی خوشبو مرے الجھے ہوئے بالوں سے لپٹی ہے تمہارے لمس کا ہر ذائقہ محفوظ ہے اب تک مری پوروں کے ہونٹوں پر بدن پر گھاس کے پتوں نے رستہ روک رکھا تھا پسینے کی لکیروں کا مری بھیگی ہتھیلی کے تلے خواہش بدن میں کپکپاتی تھی تو جیسے جھیل کے ساحل پہ ٹھہری کشتیاں اٹھکھیلیاں کرتے ...

    مزید پڑھیے

    بوسہ

    جھیل کنارہ حبس میں ڈوبی بوجھل بھاری شام تین طرف جنگل کی خوشبو چوتھی کھونٹ طلسم سات درا اک شہر کہ جس میں صدیوں بوڑھے بھید پہلے در کا بھید ہوا الہام ابھی اس پل میں ہاتھوں سے تن ڈھکتی مورت میں آدم کا جایا تو بھی کچھ تو بول ترا کیا نام ابھی اس پل میں

    مزید پڑھیے

    سگریٹ

    میں کہ اک اور گزرتے ہوئے پل کے ہم راہ اپنی خوشبو میں بسا آپ ہی آپ سلگتا ہوا کاغذ کا وجود ہاتھ پھیلا کے کسی راکھ سے اٹتے ہوئے برتن میں مسل دیتا ہوں راکھ کے ڈھیر پہ کچھ دیر کو رکتا ہے دھواں وہ سیہ پوش وجود مجھ سے کہتا ہے کے تم وقت کا انداز لیے ہو لیکن وقت جو روز نہ جانے کتنے دھیمے ...

    مزید پڑھیے

    گوادر چھاؤنی

    اگر کہیں ان کے بس میں ہو تو وطن کی مٹی کے چپے چپے پہ چھاؤنی ہو اگر کہیں ان کے بس میں ہو تو بدن کی مٹی کے چپے چپے پہ چھاؤنی ہو جو لوگ اب تک مسائل ہست و بود ہی سے نمٹ رہے تھے اب ان میں اک فصل نیست کٹتی ہو اور نابود اگ رہا ہو اگر کہیں ان کے بس میں ہو تو زمین سے بارود اگ رہا ہو اگر کہیں ان ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2