حویلی
وقت کی ریت کے کچھ آخری ذرے ہیں مری مٹھی میں
تن پہ ہر بیتے ہوئے پل کے لیے اک سلوٹ
ذہن کے گوشوں میں یادوں کی نمی
اور دیواروں پہ دیمک زدہ لمحوں کو لئے
چوکھٹوں میں کئی دھندلے چہرے
صحن ماضی میں کئی گمشدہ نسلوں کی وراثت کا امیں
ایستادہ کوئی بوڑھا برگد
فرش پر وقت کے پڑتے ہوئے پیلے پتے
ہاں مگر ایک دھڑکتا ہوا دل
جو ترے ساتھ کٹے وقت میں زندہ ہے ابھی
جس کی دھڑکن سے مرے جسم کو خوف آتا ہے
بالکل ایسے مری بوسیدہ حویلی جیسے
تیری انگڑائی کے لمحوں میں لرز اٹھتی تھی