خواہش
ماہ و سال سے تھوڑا ہٹ کے
دشت اور در سے دور
ہجر وصال کی زد سے باہر
رات اور دن کے پار
کبھی فرصت سے مل یار
تن کی مٹی جھاڑ دے
من مندر کی کھڑکی کھول
آوازوں کے جنگل میں
کبھی چپ کی بولی بول
میری آنکھ کے درپن میں
دیکھ اپنا روپ سروپ
میرے عشق کے گہنے سے
کبھی اپنا آپ سنوار
کبھی فرصت سے مل یار
کبھی اپنے آپ سے باہر آ
ٹک بیٹھ ہمارے ساتھ
چل دکھ دریا کے پار چلیں
لا ہاتھ میں دے دے ہاتھ
ہم اپنا ہونا تیاگ کے
ترے ہونے پر تیار
کبھی فرصت سے مل یار