سب تھکن آنکھ میں سمٹ جائے

سب تھکن آنکھ میں سمٹ جائے
نیند آ جائے رات کٹ جائے


روبرو ہوں تو گفتگو بھی کریں
کون آواز سے لپٹ جائے


وہم یہ ہے کہ بند دروازہ
دیکھ کر ہی نہ وہ پلٹ جائے


سیکھ دریا سے کوہ پیمائی
کوئی کیوں راستے سے ہٹ جائے


کون مارے گا دوسرا پتھر
کوئی صورت کہ درد بٹ جائے


میں ہوا ہوں کہ چل رہا ہوں ہنوز
عرصۂ دہر ہی نہ کٹ جائے


بے دلی خلعت ندامت ہے
اک بلا ہے اگر چمٹ جائے


اپنے چہرے کو ڈھانپ ڈھانپ کے رکھ
آئنہ گرد سے نہ اٹ جائے