قائل کروں کس بات سے میں تجھ کو ستم گر
قائل کروں کس بات سے میں تجھ کو ستم گر
ڈھلوان پہ رکتا نہیں پانی ہو کہ پتھر
سورج نکل آیا تو وہ موسم نہ رہے گا
کچھ دیر کا مہماں ہے یہاں صبح کا منظر
باہر جو میں نکلوں تو برہنہ نظر آؤں
بیٹھا ہوں میں گھر میں در دیوار پہن کر
بے کار گیا گہرے سمندر میں اترنا
لہریں مجھے پھر ڈال گئیں ریت کے اوپر
آ دیکھ کہ ہوں اب بھی میں آغوش کشادہ
آنکھیں ہیں مری اوس میں بھیگا ہوا بستر
کیا مجھ سے مری عمر کا قد ناپ رہے ہو
ہر پل ہے یہاں کتنی ہی صدیوں کے برابر
بادل ہو تو پھر کھل کے برس لو کبھی شاہد
ہے بات اگر دل میں تو کہہ دو اسے منہ پر