سورج زمیں کی کوکھ سے باہر بھی آئے گا
سورج زمیں کی کوکھ سے باہر بھی آئے گا
ہوں منتظر کہ صبح کا منظر بھی آئے گا
مٹی کا جسم لے کے چلے ہو تو سوچ لو
اس راستے میں ایک سمندر بھی آئے گا
ہر لحظہ اس کے پاؤں کی آہٹ پہ کان رکھ
دروازے تک جو آیا ہے اندر بھی آئے گا
کب تک یوں ہی زمین سے لپٹے رہیں قدم
یہ زعم ہے کہ کوئی پلٹ کر بھی آئے گا
دیکھا نہ تھا کبھی مری آنکھوں نے آئینہ
احساس بھی نہ تھا کہ مجھے ڈر بھی آئے گا
پتھر کے ساتھ باندھ کے دریا میں ڈالیے
ورنہ یہ جسم ڈوب کے اوپر بھی آئے گا
شاہدؔ بجا یہ زعم کہ گوہر شناس ہو
یہ سوچ لو کہ ہاتھ میں پتھر بھی آئے گا