میرے احساس کی رگ رگ میں سمانے والے
میرے احساس کی رگ رگ میں سمانے والے
اب کہاں ہیں مجھے دن رات ستانے والے
دیکھ لیتے ہیں مگر آنکھ چرا جاتے ہیں
دوست ہر وقت مجھے پاس بٹھانے والے
بند پانی کی طرح بیکس و مجبور ہیں اب
تند موجوں کی طرح شور مچانے والے
ایک پتھر بھی سر راہ گزر رکھا ہے
رات گہری ہے ذرا دھیان سے جانے والے
کون بجھتے ہوئے سورج کی طرف دیکھے گا
ہیں اجالوں کے طلب گار زمانے والے
ہار کے بیٹھ گئے دھوپ کی آغوش میں خود
سرد راتوں میں مرا جسم جلانے والے
گر گئے ریت کی دیوار ہو جیسے شاہدؔ
بن کے کوہسار مری راہ میں آنے والے