پھر کوئی محشر اٹھانے میری تنہائی میں آ

پھر کوئی محشر اٹھانے میری تنہائی میں آ
اپنے ہونے کی خبر لے کر کبھی بستی میں آ


دیکھنا ٹھہرا تو پھر اک یہ تماشا بھی سہی
آگ لگنے کی خبر سن کر ہی اب کھڑکی میں آ


اے مرے ہونٹوں کی لذت شاخ کو بوجھل نہ کر
اک ہلورے میں شجر سے ٹوٹ کر جھولی میں آ


جرم بے لذت ہے ساحل پر تری تر دامنی
یا پلٹ خشکی کی جانب یا کھلے پانی میں آ


توڑ بھی دے حلقۂ یاراں بہت شب ڈھل چکی
نقل زندانی کو گھر کی چار دیواری میں آ


میرے پیروں میں تو زنجیریں گلی کوچوں کی ہیں
مجھ سے ملنے شہر کی گنجان آبادی میں آ


خواہش بے خانماں کو لا مکان حرف میں
نو ولد بچے کی صورت پیکر معنی میں آ


نیند کچھ کر لے کہ تازہ آنکھ پہ سورج کھلے
صبح ساحل پر اترنا ہے تو اس کشتی میں آ


خون شریانوں کا آنکھوں میں دکھائی دے سکے
تو بھی دریا ہے اگر شاہدؔ تو طغیانی میں آ