Saleem Kausar

سلیم کوثر

اہم پاکستانی شاعر ، اپنی غزل ’ میں خیال ہوں کسی اور کا ‘ کے لئے مشہور

Well-known poet from Pakistan famous for his ghazal "main khayaal hoon kisi aur ka…"

سلیم کوثر کی نظم

    شاعر خوش نوا

    وہی کار دنیا وہی کار دنیا کے اپنے جھمیلے وہی دل کی حالت وہی خواہشوں آرزوؤں کے میلے وہی زندگی سے بھری بھیڑ میں چلنے والے سبھی لوگ اپنی جگہ پر اکیلے کئی گرد آلود منظر نگاہوں کی دہلیز پر جم گئے ہیں مجھے یوں لگا جیسے چلتے ہوئے وقت کے قافلے تھم گئے ہیں ذرا سیڑھیوں سے ادھر میں نے ...

    مزید پڑھیے

    سندیسہ

    اسے کہنا کبھی ملنے چلا آئے ہمارے پاؤں میں جو راستہ تھا راستے میں پیڑ تھے پیڑوں پہ جتنی طائروں کی ٹولیاں ہم سے ملا کرتی تھیں اب وہ اڑتے اڑتے تھک گئی ہیں وہ گھنی شاخیں جو ہم پر سایا کرتی تھیں وہ سب مرجھا گئی ہیں تم اسے کہنا کبھی ملنے چلا آئے لبوں پر لفظ ہیں لفظوں میں کوئی داستاں قصہ ...

    مزید پڑھیے

    احتجاج

    امن کی چادر میں بارود اور مہلک ہتھیاروں کی گٹھڑی باندھ کے دنیا بھر میں بھیجنے والے بے حس لوگو اپنی سازش گاہ سے باہر جھانک کے دیکھو چہرے پر جانی پہچانی بے مقصد سی کچھ تحریریں تھکے ہوئے پیروں میں بھاگتے رستوں کی ساکت زنجیریں جیسے آزادی کے گھر میں قید ہوں دو ننگی تصویریں خشک لبوں ...

    مزید پڑھیے

    ہم برے لوگ ہیں

    تم ہی اچھے تھے کسی سے کبھی تکرار نہ کی تم کہ تکرار کے خوگر بھی نہ تھے تم ہی اچھے تھے جو منجملۂ ارباب نظر رہتے تھے شہر پر حوصلہ میں شیوۂ اہل ہنر پر کبھی تنقید نہ کی اتنے بے بس تھے کہ جب وقت پڑا اپنی بھی تائید نہ کی ہم برے لوگ ہیں سچ کہتے ہیں ہم برے لوگ ہیں خوش نودیٔ ارباب اثر کے ...

    مزید پڑھیے

    محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے

    محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے جس میں تم لکھو کہ کل کس رنگ کے کپڑے پہننے کون سی خوشبو لگانی ہے کسے کیا بات کہنی کون سی کس سے چھپانی ہے کہاں کس پیڑ کے سائے تلے ملنا ہے مل کر پوچھنا ہے کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے یہ فرسودہ سا جملہ ہے مگر پھر بھی یہی جملہ دریچوں آنگنوں سڑکوں گلی کوچوں میں ...

    مزید پڑھیے

    نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز

    ابھی ابھی اک ہوا کا جھونکا جو تیرا لہجہ جو تیرے گیتوں پہیلیوں کا امین بن کر سماعتوں کو ہزار لفظوں کی داستانیں سنا گیا ہے ابھی ابھی بے کراں سا لمحہ جو کتنی صدیوں کا بوجھ اٹھائے گزر گیا ہے جو میری آنکھوں میں سوئے منظر جگا گیا ہے ابھی ابھی تیرا اک صحیفہ اک عہد بن کر دیار دل میں اتر ...

    مزید پڑھیے

    اسم آب

    جو تو تصویر کرتا ہے جو میں تحریر کرتا ہوں نہ تیرا ہے نہ میرا ہے مگر اپنا ہے یہ جب تک اسے پڑھنے میں کتنی دیر لگتی ہے ابھی ماحول کو چاروں طرف سے حبس کے صحرا نے گھیرا ہے مگر کب تک ہوا چلنے میں کتنی دیر لگتی ہے کوئی زنجیر ہے شاید ہمارے پاؤں میں اور راہ میں کافی اندھیرا ہے مگر کب تک دیا ...

    مزید پڑھیے

    امید

    دیکھو باہر آگ لگی ہے دروازے پر نئی رتوں کی خوشبو روتی ہے اور اندر بیتے موسم ویرانی پر ہنستے ہیں پھر بھی بے منظر آنکھیں امید کا جھولا جھولتی ہیں پھر بھی دل سناٹے کو آواز بنائے جاتا ہے کسے بلاتا ہے

    مزید پڑھیے

    آؤ کمرے سے نکلتے ہیں

    آؤ کمرے سے نکلتے ہیں کہیں چلتے ہیں روزن حبس میں ٹھہری ہوئی زنداں کی ہوا پا بہ زنجیر کئے جاتی ہے ہر طرف خوف بھری آنکھوں میں ایک تلوار سی لہراتی ہے کوئی در باز نہیں زیر لب بھی کوئی آواز نہیں ایسا اندیشۂ کم یابیٔ حرف کچھ بھی تو یاد نہیں ہم کوئی بات سلیقے سے نہیں کہتے تھے اس پہ بھی ...

    مزید پڑھیے

    فرار

    ٹوٹے پھوٹے وعدوں سے خوش فہمیوں کا کشکول سجائے مجھ میں رہنے کی خاطر تم آئے اس سے پہلے میں دروازہ کھولوں کچھ بولوں افواہوں کی گرد میں لپٹے زہر آلود محبت نامے لئے ہوئے تم ادھڑے ہوئے رشتوں کے جامے سیے ہوئے تم مجھ میں آن سمائے میں رہنے کے لئے بنا ہوں جو آئے مجھ میں رہ جائے مجھے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2