Saleem Kausar

سلیم کوثر

اہم پاکستانی شاعر ، اپنی غزل ’ میں خیال ہوں کسی اور کا ‘ کے لئے مشہور

Well-known poet from Pakistan famous for his ghazal "main khayaal hoon kisi aur ka…"

سلیم کوثر کے تمام مواد

50 غزل (Ghazal)

    کیا بتائیں فصل بے خوابی یہاں بوتا ہے کون

    کیا بتائیں فصل بے خوابی یہاں بوتا ہے کون جب در و دیوار جلتے ہوں تو پھر ہوتا ہے کون تم تو کہتے تھے کہ سب قیدی رہائی پا گئے پھر پس دیوار زنداں رات بھر روتا ہے کون بس تری بیچارگی ہم سے نہیں دیکھی گئی ورنہ ہاتھ آئی ہوئی دولت کو یوں کھوتا ہے کون کون یہ پاتال سے لے کر ابھرتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    دل سیماب صفت پھر تجھے زحمت دوں گا

    دل سیماب صفت پھر تجھے زحمت دوں گا دور افتادہ زمینوں کی مسافت دوں گا اپنے اطراف نیا شہر بساؤں گا کبھی اور اک شخص کو پھر اس کی حکومت دوں گا اک دیا نیند کی آغوش میں جلتا ہے کہیں سلسلہ خواب کا ٹوٹے تو بشارت دوں گا قصۂ سود و زیاں وقف مدارات ہوا پھر کسی روز ملاقات کی زحمت دوں گا میں ...

    مزید پڑھیے

    نہ اس طرح کوئی آیا ہے اور نہ آتا ہے

    نہ اس طرح کوئی آیا ہے اور نہ آتا ہے مگر وہ ہے کہ مسلسل دیئے جلاتا ہے کبھی سفر کبھی رخت سفر گنواتا ہے پھر اس کے بعد کوئی راستہ بناتا ہے یہ لوگ عشق میں سچے نہیں ہیں ورنہ ہجر نہ ابتدا نہ کہیں انتہا میں آتا ہے یہ کون ہے جو دکھائی نہیں دیا اب تک اور ایک عمر سے اپنی طرف بلاتا ہے وہ کون ...

    مزید پڑھیے

    ڈوبنے والے بھی تنہا تھے تنہا دیکھنے والے تھے

    ڈوبنے والے بھی تنہا تھے تنہا دیکھنے والے تھے جیسے اب کے چڑھے ہوئے تھے دریا دیکھنے والے تھے آج تو شام ہی سے آنکھوں میں نیند نے خیمے گاڑ دیئے ہم تو دن نکلے تک تیرا رستہ دیکھنے والے تھے اک دستک کی رم جھم نے اندیشوں کے در کھول دیئے رات اگر ہم سو جاتے تو سپنا دیکھنے والے تھے ایک ...

    مزید پڑھیے

    تارے جو کبھی اشک فشانی سے نکلتے

    تارے جو کبھی اشک فشانی سے نکلتے ہم چاند اٹھائے ہوئے پانی سے نکلتے خاموش سہی مرکزی کردار تو ہم تھے پھر کیسے بھلا تیری کہانی سے نکلتے مہلت ہی نہ دی گردش افلاک نے ہم کو کیا سلسلۂ نقل مکانی سے نکلتے اک عمر لگی تیری کشادہ نظری میں اس تنگئ داماں کو گرانی سے نکلتے بس ایک ہی موسم کا ...

    مزید پڑھیے

تمام

19 نظم (Nazm)

    شاعر خوش نوا

    وہی کار دنیا وہی کار دنیا کے اپنے جھمیلے وہی دل کی حالت وہی خواہشوں آرزوؤں کے میلے وہی زندگی سے بھری بھیڑ میں چلنے والے سبھی لوگ اپنی جگہ پر اکیلے کئی گرد آلود منظر نگاہوں کی دہلیز پر جم گئے ہیں مجھے یوں لگا جیسے چلتے ہوئے وقت کے قافلے تھم گئے ہیں ذرا سیڑھیوں سے ادھر میں نے ...

    مزید پڑھیے

    سندیسہ

    اسے کہنا کبھی ملنے چلا آئے ہمارے پاؤں میں جو راستہ تھا راستے میں پیڑ تھے پیڑوں پہ جتنی طائروں کی ٹولیاں ہم سے ملا کرتی تھیں اب وہ اڑتے اڑتے تھک گئی ہیں وہ گھنی شاخیں جو ہم پر سایا کرتی تھیں وہ سب مرجھا گئی ہیں تم اسے کہنا کبھی ملنے چلا آئے لبوں پر لفظ ہیں لفظوں میں کوئی داستاں قصہ ...

    مزید پڑھیے

    احتجاج

    امن کی چادر میں بارود اور مہلک ہتھیاروں کی گٹھڑی باندھ کے دنیا بھر میں بھیجنے والے بے حس لوگو اپنی سازش گاہ سے باہر جھانک کے دیکھو چہرے پر جانی پہچانی بے مقصد سی کچھ تحریریں تھکے ہوئے پیروں میں بھاگتے رستوں کی ساکت زنجیریں جیسے آزادی کے گھر میں قید ہوں دو ننگی تصویریں خشک لبوں ...

    مزید پڑھیے

    ہم برے لوگ ہیں

    تم ہی اچھے تھے کسی سے کبھی تکرار نہ کی تم کہ تکرار کے خوگر بھی نہ تھے تم ہی اچھے تھے جو منجملۂ ارباب نظر رہتے تھے شہر پر حوصلہ میں شیوۂ اہل ہنر پر کبھی تنقید نہ کی اتنے بے بس تھے کہ جب وقت پڑا اپنی بھی تائید نہ کی ہم برے لوگ ہیں سچ کہتے ہیں ہم برے لوگ ہیں خوش نودیٔ ارباب اثر کے ...

    مزید پڑھیے

    محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے

    محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے جس میں تم لکھو کہ کل کس رنگ کے کپڑے پہننے کون سی خوشبو لگانی ہے کسے کیا بات کہنی کون سی کس سے چھپانی ہے کہاں کس پیڑ کے سائے تلے ملنا ہے مل کر پوچھنا ہے کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے یہ فرسودہ سا جملہ ہے مگر پھر بھی یہی جملہ دریچوں آنگنوں سڑکوں گلی کوچوں میں ...

    مزید پڑھیے

تمام