احتجاج

امن کی چادر میں
بارود اور مہلک ہتھیاروں کی گٹھڑی باندھ کے
دنیا بھر میں بھیجنے والے بے حس لوگو
اپنی سازش گاہ سے باہر جھانک کے دیکھو
چہرے پر جانی پہچانی بے مقصد سی کچھ تحریریں
تھکے ہوئے پیروں میں بھاگتے رستوں کی ساکت زنجیریں
جیسے آزادی کے گھر میں قید ہوں دو ننگی تصویریں
خشک لبوں پر پیاس بھری تلخی کے سارے ذائقے لکھے
خالی پیٹ کو آنکھوں کی دہلیز پہ رکھے
سامنے ایک سڑک کے موڑ پہ
دو زندہ سائے روتے ہیں
چہرے مہرے رنگ اور نسل میں
بالکل تم جیسے ہوتے ہیں
میلے جسم پر اندر کا احوال سجائے
ہاتھوں کو کشکول بنائے
آنے جانے والوں سے کہتے رہتے ہیں
بابا کوئی کام کرا لو
اور اس کے بدلے میں ہم کو
روٹی لا دو
بھوک مٹا دو