ہم برے لوگ ہیں

تم ہی اچھے تھے کسی سے کبھی تکرار نہ کی
تم کہ تکرار کے خوگر بھی نہ تھے
تم ہی اچھے تھے
جو منجملۂ ارباب نظر رہتے تھے
شہر پر حوصلہ میں
شیوۂ اہل ہنر پر کبھی تنقید نہ کی
اتنے بے بس تھے کہ جب وقت پڑا
اپنی بھی تائید نہ کی
ہم برے لوگ ہیں سچ کہتے ہیں
ہم برے لوگ ہیں خوش نودیٔ ارباب اثر کے باغی
کبھی قطرے کو سمندر نہ لکھا
کسی ذرے کو بھی صحرا نہ کہا
قرض آئینہ چکانے کے لئے عکس سے محروم ہوئے
اور انساں سے محبت کا صلہ
اک سزا یافتہ مجرم کی طرح زندہ ہیں