امید

دیکھو باہر آگ لگی ہے
دروازے پر نئی رتوں کی خوشبو روتی ہے
اور اندر بیتے موسم ویرانی پر ہنستے ہیں
پھر بھی بے منظر آنکھیں امید کا جھولا جھولتی ہیں
پھر بھی دل سناٹے کو آواز بنائے جاتا ہے
کسے بلاتا ہے