زمیں دار

جنون حاکمیت خود پسندی کا یہ لاوا
کیوں ابلتا اور بہتا جا رہا ہے
ساری دھرتی پر
کہاں سے حکم آتا ہے
یہ کیسی سوچ کے پیرائے میں
تم ڈھالے جاتے ہو
کہ نفرت اور گہری ہو رہی ہے
زمیں زادو
بدن دھرتی میں بونے سے
فقط قبریں ہی اگتی ہیں
لہو بہتا رہا تو
مہر و وفا احساس کے
سب بہتے دریا سوکھ جائیں گے
زمیں زادو
یہ کیسے خوف کے اندھے کنوئیں میں
قید ہیں سارے
کہ اک دوجے سے بچنے کے لیے
ہم بم بناتے ہیں
اور اک دوجے پہ شب کی تیرگی میں
وار کرتے ہیں
زمیں زادو
زمیں تقسیم کر کے
سرحدیں کس نے بنائی ہیں
وہ دن بھی آنے والا ہے
پرندوں کے لئے بھی
جب کوئی قانون آئے گا
سپاہی فاختاؤں کے پروں کو بھی ٹٹولیں گے
پرندے دل میں سوچیں گے
ہمیں انسان نے
کیوں اپنی صف میں کر لیا شامل
یہ کس نے حق دیا ہے اس کو
ہمیں اپنی طرح سمجھے
ہمیں اپنی طرح سوچے
زمیں زادو
خلا کا زخم بڑھتا جا رہا ہے
پہاڑوں کی سفیدی میں پگھل کر
اب ندی کی آنکھ سی بہنے لگی
کبھی منظر دھوئیں میں
قید ہوتے جا رہے ہیں
زمیں زادو
گلوں سے تتلیاں اور تتلیوں سے باغ مت چھنیو
کہ اب تو شرم آتی ہے
مری پہچان ہونے پر
مجھے انسان ہونے پر
زمیں زادو