پھر سرخ پھول شہر کے پیڑوں میں آ گئے

پھر سرخ پھول شہر کے پیڑوں میں آ گئے
روحوں میں جتنے زخم تھے چہروں میں آ گئے


ہر اک دریچہ پھول سے چہروں سے بھر گیا
اب تو چمن بھی شہر کی گلیوں میں آ گئے


دل میں ترے خلوص کے دریا تھے گر رواں
شعلے کہاں سے پھر تری آنکھوں میں آ گئے


اب دیکھئے گا کس طرح اڑتی ہیں کرچیاں
پتھر سے لوگ آئنہ خانوں میں آ گئے


ہم سایہ دار پیڑ کے نیچے ہیں زخم زخم
پتھر کہاں سے ریشمی پتوں میں آ گئے


بس اتنے ہی جری تھے حریفان آفتاب
چمکی ذرا سی دھوپ تو کمروں میں آ گئے


بیتابؔ اب تو لوٹ کے جانا محال ہے
ہم گہرے پانیوں کے جزیروں میں آ گئے