کل تلک قانع رہا جو گردش تقدیر پر
کل تلک قانع رہا جو گردش تقدیر پر
مستعد ہے آج وہ آفاق کی تسخیر پر
شور و غل میں شہر کے اس کی صدا بھی کھو گئی
ناز تھا جس کو کہ اپنے نطق کی تاثیر پر
جو بھری محفل کے دل میں روشنی پھیلا گئی
وہ خفا ہے آج تک میری اسی تقریر پر
اور جب وہ لے سکا مجھ سے نہ کوئی انتقام
ڈال دی اک خاک کی مٹھی مری تصویر پر
اپنے ہی جذبات کے آگے نہ کچھ اس کی چلے
وہ جو قادر ہے خلاؤں کی کٹھن تسخیر پر
کیوں نہ دوں میں دوسروں کو رت جگے کا مشورہ
میں کہ خود نادم ہوں اپنے خواب کی تعبیر پر
جب سے لکھا ہے قصیدہ میں نے اس کی شان میں
رشک سا آنے لگا اس کو مری تحریر پر
آخرش وہ زینت آغوش گمنامی ہوا
وہ جو خوش ہوتا تھا اپنی کھوکھلی تشہیر پر
کس طرح بیتابؔ اس نے چھو لئے بربط کے تار
ہاتھ جو رکھا ہوا تھا قبضۂ شمشیر پر