Sajjad Baqar Rizvi

سجاد باقر رضوی

سجاد باقر رضوی کی غزل

    میں ہم نفساں جسم ہوں وہ جاں کی طرح تھا

    میں ہم نفساں جسم ہوں وہ جاں کی طرح تھا میں درد ہوں وہ درد کے عنواں کی طرح تھا تو کون تھا کیا تھا کہ برس گزرے پہ اب بھی محسوس یہ ہوتا ہے رگ جاں کی طرح تھا جس کے لیے کانٹا سا چبھا کرتا تھا دل میں پہلو میں وہ آیا تو گلستاں کی طرح تھا اک عمر الجھتا رہا دنیا کی ہوا سے کیا میں بھی ترے ...

    مزید پڑھیے

    مرے سفر کی حدیں ختم اب کہاں ہوں گی

    مرے سفر کی حدیں ختم اب کہاں ہوں گی کہ منزلیں بھی تو آخر رواں دواں ہوں گی یہ فاصلے جو ابھی طے ہوئے ہیں کہتے ہیں یہ قربتیں ترے احساس پر گراں ہوں گی جو دن کو رنگ لگیں اور شب کو پھول بنیں وہ صورتیں کہیں ہوں گی مگر کہاں ہوں گی وہ ہاتھ روٹھ گئے اور وہ ساتھ چھوٹ گئے کسے خبر تھی کہ اتنی ...

    مزید پڑھیے

    ترے تغافل سے ہے شکایت نہ اپنے مٹنے کا کوئی غم ہے

    ترے تغافل سے ہے شکایت نہ اپنے مٹنے کا کوئی غم ہے یہ سب بظاہر بجا ہے لیکن یہ آنکھ کیوں آج میری نم ہے نئی امنگوں کو ساتھ لے کر رواں ہوں پھر جادۂ وفا پر مگر ہے احساس نا مرادی کہ سہما سہما سا ہر قدم ہے مری امیدوں کو روند کر اب مری خوشی کی ہے تم کو پروا یہ کیا نیا روپ تم نے دھارا یہ کیا ...

    مزید پڑھیے

    گھرتے بادل میں تنہائی کیسی لگتی ہے

    گھرتے بادل میں تنہائی کیسی لگتی ہے ملن کا موسم اور جدائی کیسی لگتی ہے سونے من کے تاروں سے جب باتیں ہوتی ہوں دوجے آنگن کی شہنائی کیسی لگتی ہے دل کی چوٹ ابھر آئے اور زخم ہرے ہو جائیں یادوں کی چلتی پروائی کیسی لگتی ہے تم کو شہر خیال میں رہنا کیسا لگتا ہے وہ بستی جو دل نے بسائی ...

    مزید پڑھیے

    حال دل کچھ جو سر بزم کہا ہے میں نے

    حال دل کچھ جو سر بزم کہا ہے میں نے وہ یہ سمجھے ہیں کہ الزام دیا ہے میں نے منہ تو پھیرا ہے کبھی یہ بھی تو سوچا ہوتا تمہیں چاہا ہے تمہیں پیار کیا ہے میں نے لا سکو گے سر پیشانی وہ تابانی و نور تمہیں اشعار میں جو بخش دیا ہے میں نے کیا کہیں سیکھ لیے ہیں نئے انداز فریب باندھتے ہو نئے ...

    مزید پڑھیے

    راہوں کے اونچ نیچ ذرا دیکھ بھال کے

    راہوں کے اونچ نیچ ذرا دیکھ بھال کے ہاں رہرو مراد قدم رکھ سنبھال کے فتنوں کو دیکھ اپنے قدم روک بیٹھ جا راتیں یہ آفتوں کی ہیں یہ دن وبال کے میں سرگراں تھا ہجر کی راتوں کے قرض سے مایوس ہو کے لوٹ گئے دن وصال کے کچھ یہ نہ تھا کہ میں نے نہ سمجھی بساط دہر میں خود ہی کھیل ہار گیا دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    دل دشت ہے وفور تمنا غبار ہے

    دل دشت ہے وفور تمنا غبار ہے اے ابر نو امید ترا انتظار ہے پھر استوار رابطۂ سنگ و سر ہوا پھر ان دنوں جنوں کو ہوا سازگار ہے جاں دادگی کی رسم جگاؤ کہ آج کل پھر ملتفت ہوائے سر رہ گزار ہے ہر نکہت خیال اسیر ہوا ہوئی ہر موج نور کم نگہی کی شکار ہے روشن ضمیر تیرہ نصیبی خدا کی شان اتنی سی ...

    مزید پڑھیے

    سوئے ہوؤں میں خواب سے بیدار کون ہے

    سوئے ہوؤں میں خواب سے بیدار کون ہے اس عالم خیال میں ہشیار کون ہے مت پوچھ اس کا طالب دیدار کون ہے یہ دیکھ مہر بر لب گفتار کون ہے اترا ہے چاند سینے میں یا خود ہی جل اٹھے تاریکیوں میں دل کی ضیا بار کون ہے عرض ہنر میں کوہ وفا پر ہو تیشہ زن دے جان نذر شعلۂ اظہار کون ہے جو فن طرازیاں ...

    مزید پڑھیے

    اندھیرے دن کی سفارت کو آئے ہیں اب کے

    اندھیرے دن کی سفارت کو آئے ہیں اب کے ہیں کتنی روشنیاں اشتہار میں شب کے یہاں تو دیکھ لیے ہم نے حوصلے سب کے ملے نہ دوست نہ دشمن ہی اپنے منصب کے بس ایک بات پہ ناکامیوں نے گھیر لیا زباں سے آئے لبوں تک نہ حرف مطلب کے جو لب کشادہ تھے وہ مدعی بنے لیکن جو دل کشادہ تھے وہ کام آ گئے سب ...

    مزید پڑھیے

    کم ظرف بھی ہے پی کے بہکتا بھی بہت ہے

    کم ظرف بھی ہے پی کے بہکتا بھی بہت ہے بھرتا بھی نہیں اور چھلکتا بھی بہت ہے اللہ کی مرضی کا تو سختی سے ہے پابند حاکم کی رضا ہو تو لچکتا بھی بہت ہے کوتاہ قدی کہتی ہے کھٹے ہیں یہ انگور لیکن گہ و بے گاہ لپکتا بھی بہت ہے پروا ہے نہ کچھ تال کی نے سر کی خبر ہے پر ساز پہ دنیا کے مٹکتا بھی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5