Sajjad Baqar Rizvi

سجاد باقر رضوی

سجاد باقر رضوی کی غزل

    نمایاں اور بھی رخ تیری بے رخی میں رہے

    نمایاں اور بھی رخ تیری بے رخی میں رہے سپردگی کے بھی پہلو کشیدگی میں رہے نظر اٹھی تو اٹھا شور اک قیامت کا نہ جانے کیسے یہ ہنگامے خامشی میں رہے ہوائے شہر غریبی کی کیفیت تھی عجیب نشے میں رہ کے بھی ہم اپنے آپ ہی میں رہے پکارتے رہے کیا کیا نہ دل کے ویرانے ہم ایسے شہر میں الجھے تھے ...

    مزید پڑھیے

    وہ ماہ وش ہے زمیں پر نظر جھکائے ہوئے

    وہ ماہ وش ہے زمیں پر نظر جھکائے ہوئے ستارے بیٹھے رہیں محفلیں سجائے ہوئے گئے تھے کتنی امنگوں کو لے کے سینے میں جو تیری بزم سے اٹھے تو سر جھکائے ہوئے ہمیں بھی پیار سے دیکھو کہ ہم ہیں خستہ جگر غم زمانہ کے مارے ہوئے ستائے ہوئے ہمیں تو ایک نہیں کشتۂ مآل کرم کچھ اور بھی ہیں فریب نگاہ ...

    مزید پڑھیے

    ہم راز گرفتاری دل جان گئے ہیں

    ہم راز گرفتاری دل جان گئے ہیں پھر بھی تری آنکھوں کا کہا مان گئے ہیں تو شعلۂ جاں نکہت غم صوت طلب ہے ہم جان تمنا تجھے پہچان گئے ہیں کیا کیا نہ ترے شوق میں ٹوٹے ہیں یہاں کفر کیا کیا نہ تری راہ میں ایمان گئے ہیں اس رقص میں شعلے کے کوئی سحر تو ہوگا پروانے بڑی آن سے قربان گئے ...

    مزید پڑھیے

    اسے میں تلاش کہاں کروں وہ عروج ہے میں زوال ہوں

    اسے میں تلاش کہاں کروں وہ عروج ہے میں زوال ہوں غم مستقل مرا حل کہاں وہ جواب ہے میں سوال ہوں نئے موسموں کی ہوں آرزو نئی رفعتوں کی ہوں جستجو مجھے توڑ خواب جہان نو میں طلسم باب خیال ہوں مرے آئینے کی کدورتیں مری اپنی ذات کی گرد ہیں مجھے کب ملال کسی سے ہو کہ میں آپ اپنا مآل ہوں مری ...

    مزید پڑھیے

    بے دلی وہ ہے کہ مرنے کی تمنا بھی نہیں

    بے دلی وہ ہے کہ مرنے کی تمنا بھی نہیں اور جی لیں کسی امید پہ ایسا بھی نہیں نہ کوئی سر کو ہے سودا نہ کوئی سنگ سے لاگ کوئی پوچھے تو کچھ ایسا غم دنیا بھی نہیں وقت وہ ہے کہ جبیں لے کے کرو در کی تلاش عجب آشفتہ سری ہے کہ تماشا بھی نہیں اپنے آئینے میں خود اپنی ہی صورت ہوئی مسخ مگر اس ...

    مزید پڑھیے

    خواہش میں سکوں کی وہی شورش طلبی ہے

    خواہش میں سکوں کی وہی شورش طلبی ہے یعنی مجھے خود میری طلب ڈھونڈ رہی ہے دل رکھتے ہیں آئینۂ دل ڈھونڈ رہے ہیں یہ اس کی طلب ہے کہ وہی خود طلبی ہے تصویر میں آنکھیں ہیں کہ آنکھوں میں ہے تصویر اوجھل ہو نگاہوں سے تو بس دل پہ بنی ہے دن بھر تو پھرے شہر میں ہم خاک اڑاتے اب رات ہوئی چاند ...

    مزید پڑھیے

    چاہت جی کا روگ ہے پیارے جی کو روک لگاؤ کیوں

    چاہت جی کا روگ ہے پیارے جی کو روک لگاؤ کیوں جیسی کرنی ویسی بھرنی اب اس پر پچھتاؤ کیوں سرخ ہیں آنکھیں زرد ہے چہرہ رنگوں کی ترتیب عجیب اس بے رنگ زمانے کو تم ایسے رنگ دکھاؤ کیوں دل کا در کب بند ہوا ہے کوئی آئے کوئی جائے جو آئے اور کبھی نہ جائے وہ مہمان بلاؤ کیوں صبح کا بھولا شام ...

    مزید پڑھیے

    عہد وفا سبک ہوا رنگ وفا کے ساتھ ساتھ

    عہد وفا سبک ہوا رنگ وفا کے ساتھ ساتھ روح سخن بدل گئی طرز ادا کے ساتھ ساتھ سر میں لیے تری ہوا عازم شہر دل چلا نکہت گل کے ہم رکاب موج صبا کے ساتھ ساتھ ڈھنگ بدلتے جائیں گے رنگ مچلتے آئیں گے لغزش پا کی طرز میں رنگ حنا کے ساتھ ساتھ ایک ترے خیال نے فکر کو پر لگا دیے ہم بھی ہواؤں میں رہے ...

    مزید پڑھیے

    حاصل زیست عشق ہی تو نہیں

    حاصل زیست عشق ہی تو نہیں چشم و ابرو ہی زندگی تو نہیں زلف شب رنگ و چشم سحر‌ انداز یہ بہت کچھ ہیں پر یہی تو نہیں میرے لب تک ترے تغافل کی بات آئی مگر کہی تو نہیں آپ ناراض ہو گئے اتنا یہ کوئی ایسی بات بھی تو نہیں کٹ ہی جائے گی یہ بھی اے باقرؔ ہجر کی رات دائمی تو نہیں

    مزید پڑھیے

    ان سے وہ رسم ملاقات چلی جاتی ہے

    ان سے وہ رسم ملاقات چلی جاتی ہے یہ بھی سو بات میں اک بات چلی جاتی ہے وہی بے مہرئی دنیا کی شکایت ہے جو تھی وہی بے کیفیٔ حالات چلی جاتی ہے دل سے کس طرح ہٹے سایۂ وحشت کی ابھی ان نگاہوں کی کرامات چلی جاتی ہے میری آشفتہ مزاجی پہ وہ ہنس دیتے ہیں یوں بھی اک طرز مدارات چلی جاتی ہے جب سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5