نمایاں اور بھی رخ تیری بے رخی میں رہے
نمایاں اور بھی رخ تیری بے رخی میں رہے سپردگی کے بھی پہلو کشیدگی میں رہے نظر اٹھی تو اٹھا شور اک قیامت کا نہ جانے کیسے یہ ہنگامے خامشی میں رہے ہوائے شہر غریبی کی کیفیت تھی عجیب نشے میں رہ کے بھی ہم اپنے آپ ہی میں رہے پکارتے رہے کیا کیا نہ دل کے ویرانے ہم ایسے شہر میں الجھے تھے ...