کم ظرف بھی ہے پی کے بہکتا بھی بہت ہے

کم ظرف بھی ہے پی کے بہکتا بھی بہت ہے
بھرتا بھی نہیں اور چھلکتا بھی بہت ہے


اللہ کی مرضی کا تو سختی سے ہے پابند
حاکم کی رضا ہو تو لچکتا بھی بہت ہے


کوتاہ قدی کہتی ہے کھٹے ہیں یہ انگور
لیکن گہ و بے گاہ لپکتا بھی بہت ہے


پروا ہے نہ کچھ تال کی نے سر کی خبر ہے
پر ساز پہ دنیا کے مٹکتا بھی بہت ہے


شوریدگی بڑھتی ہے در لیلی زر پر
دیوار پہ یہ سر کو پٹکتا بھی بہت ہے


محفل میں تو سنیے ہوس جاہ پہ تقریر
پہلو میں یہی خار کھٹکتا بھی بہت ہے


باقرؔ جو بھٹکتا ہے معانی کے سفر میں
ہو صورت زیبا تو اٹکتا بھی بہت ہے