Sajjad Baqar Rizvi

سجاد باقر رضوی

سجاد باقر رضوی کی نظم

    دیوار قہقہہ

    ادھر نہ آؤ کہ یہ محل اب شکست شوکت کی داستاں ہے کہ یہ محل اب شکست اقدار کا نشاں ہے کہ یہ محل اب شکست افکار کی فغاں ہے ادھر نہ دیکھو کہ یہ کھنڈر ہے جنوں کا بھوتوں کا آستاں ہے کہ یہ امنگوں کی بے بسی کی بڑی طویل ایک داستاں ہے کہ یہ ہے مسکن سیاہ راتوں کا ، ہرطرف بس دھواں دھواں ہے ادھر نہ ...

    مزید پڑھیے

    زہر کا سفر

    میں انسان ہوں میں نے اک ناگن کو ڈسا اس کو اپنا زہر دیا ایسا زہر کہ جس کا منتر کوئی نہیں اس کی رگ رگ میں چنگاری اس کے لہو میں آگ میرے زہر میں نشہ بھی ہے ایسا نشہ جس کا کوئی خمار نہیں وہ ناگن اب مست نشے میں جھومے گی بہک بہک کر ہر سو مجھ کو ڈھونڈے گی اس کی زباں باہر کو نکلی اس کے منہ میں ...

    مزید پڑھیے

    رات

    آندھیاں آسمانوں کا نوحہ زمیں کو سناتی ہیں اپنی گلو گیر آواز میں کہہ رہی ہیں، درختوں کی چنگھاڑ نیچی چھتوں پر یہ رقص آسمانی بگولوں کا اونچی چھتوں کے تلے کھیلے جاتے ڈرامہ کا منظر ہے یہ اس ظلم کا استعارہ ہے جو شہ رگ سے ہابیل کی گرم و تازہ لہو بن کے ابلا ہے آندھیوں میں تھا اک شور کرب و ...

    مزید پڑھیے

    شام

    دن کو اس کا لہو تھا ارزاں پھر آئی یہ شام غریباں طوق گلے میں، پاؤں بہ جولاں صبر ہے گریاں، ظلم ہے خنداں شام ہوئی کرب و بلا، سناٹا ہر سو ہر سو اس کے لہو کی خوشبو میرے لفظ اور اس کے جادو شام ہوئی

    مزید پڑھیے

    صبح

    آخر شب تھی وہ صحن مسجد میں بے سدھ پڑا سو رہا تھا میں نے اس کو جگایا اٹھ۔۔۔ یہ شہادت کا تکبیر کا وقت ہے دعاؤں کی تسخیر کا وقت ہے وہ اٹھا۔۔۔ میرا قاتل جسے میں نے خود ہی اٹھایا اٹھا۔۔۔ اور محراب مسجد میں میرے لہو سے چراغاں ہوا

    مزید پڑھیے

    پھیری والا

    پریت نگر سے پھیری والا میری گلی میں آیا چوڑی، لونگ، انگوٹھی، چھلے رنگ برنگے لایا میں نے پوچھا اور بھی کچھ ہے، بولا میٹھا سپنا جس کو لے کر جیون بھر اک نام کی مالا جپنا میں نے کہا کیا مول ہے اس کا، بولا اک مسکان تن میں آگ لگاؤ اس سے رکھو من کی آن سستا سودا دیکھ کے آخر میں پگلی ...

    مزید پڑھیے