Sajjad Baqar Rizvi

سجاد باقر رضوی

سجاد باقر رضوی کے تمام مواد

43 غزل (Ghazal)

    زخم کھلے پڑتے ہیں دل کے موسم ہے یہ بہاروں کا

    زخم کھلے پڑتے ہیں دل کے موسم ہے یہ بہاروں کا لالہ و گل کی بات نکالو ذکر کرو انگاروں کا ہم دکھیارے ان کے سہارے چار قدم ہی چل لیں گے چاند کا آخر ہم کیا لیں گے کیا بگڑے گا تاروں کا ایک تبسم اک نگہ خاموش تکلم وہ بھی نہیں کیا ہوگا جینے کا سہارا ہم سے دل افگاروں کا ہم تو ٹھہرے غم کے ...

    مزید پڑھیے

    ہزار شکر کبھی تیرا آسرا نہ گیا

    ہزار شکر کبھی تیرا آسرا نہ گیا مگر یہ ہے دل آدم کہ وسوسہ نہ گیا وہ جب کہ زیست بھی اک فن تھی وہ زمانہ گیا اب ایک چیخ کہ انداز‌ شاعرانہ گیا بہت ہی شور تھا اہل جنوں کا پر اب کے خرد سے آ کے کوئی زور آزما نہ گیا چلی ہے اب کے برس وہ ہوائے شدت برف دیار دل کی طرف کوئی قافلہ نہ گیا بہت ہی ...

    مزید پڑھیے

    فریب تھا عقل و آگہی کا کہ میری فکر و نظر کا دھوکا

    فریب تھا عقل و آگہی کا کہ میری فکر و نظر کا دھوکا جو آخر شب کی چاندنی پر ہوا تھا مجھ کو سحر کا دھوکا میں باغبانوں کی سازشوں کو سیاستوں کو سمجھ چکا ہوں خزاں کا کھا کر فریب پیہم اٹھا کے برق و شرر کا دھوکا شعور پختہ کی خیر ہو جس نے زندگی کو بچا لیا ہے تری نگاہ کرم نما نے دیا تو تھا ...

    مزید پڑھیے

    باقرؔ نشانۂ غم و رنج و الم تو ہو

    باقرؔ نشانۂ غم و رنج و الم تو ہو چھوڑو کچھ اور بات کرو درد کم تو ہو اے کشتۂ خلوص محبت بکار باش لب پر شگفتگی نہ سہی آنکھ نم تو ہو ہر دم رہے حدیث معنی سے ہم کو کام ذکر خدا اگر نہیں ذکر صنم تو ہو کچھ تو پئے شکست سکوت شب الم گریہ سہی فغاں سہی کچھ دم بہ دم تو ہو چشم غزال و حسن غزل کا ...

    مزید پڑھیے

    کیا ملا اے زندگی قانون فطرت سے مجھے

    کیا ملا اے زندگی قانون فطرت سے مجھے کچھ ملا حق بھی تو باطل کی وساطت سے مجھے میرے مالک میں تکبر سے نہیں ہوں سر بلند سر جھکا اتنا ہوئی نفرت اطاعت سے مجھے میں وہ عاشق ہوں کہ خود ہی چومتا ہوں اپنے ہاتھ کب بھلا فرصت ملی اپنی رقابت سے مجھے میں وہ ٹوٹا آئنہ ہوں آپ اپنے سامنے جس میں ہول ...

    مزید پڑھیے

تمام

6 نظم (Nazm)

    دیوار قہقہہ

    ادھر نہ آؤ کہ یہ محل اب شکست شوکت کی داستاں ہے کہ یہ محل اب شکست اقدار کا نشاں ہے کہ یہ محل اب شکست افکار کی فغاں ہے ادھر نہ دیکھو کہ یہ کھنڈر ہے جنوں کا بھوتوں کا آستاں ہے کہ یہ امنگوں کی بے بسی کی بڑی طویل ایک داستاں ہے کہ یہ ہے مسکن سیاہ راتوں کا ، ہرطرف بس دھواں دھواں ہے ادھر نہ ...

    مزید پڑھیے

    زہر کا سفر

    میں انسان ہوں میں نے اک ناگن کو ڈسا اس کو اپنا زہر دیا ایسا زہر کہ جس کا منتر کوئی نہیں اس کی رگ رگ میں چنگاری اس کے لہو میں آگ میرے زہر میں نشہ بھی ہے ایسا نشہ جس کا کوئی خمار نہیں وہ ناگن اب مست نشے میں جھومے گی بہک بہک کر ہر سو مجھ کو ڈھونڈے گی اس کی زباں باہر کو نکلی اس کے منہ میں ...

    مزید پڑھیے

    رات

    آندھیاں آسمانوں کا نوحہ زمیں کو سناتی ہیں اپنی گلو گیر آواز میں کہہ رہی ہیں، درختوں کی چنگھاڑ نیچی چھتوں پر یہ رقص آسمانی بگولوں کا اونچی چھتوں کے تلے کھیلے جاتے ڈرامہ کا منظر ہے یہ اس ظلم کا استعارہ ہے جو شہ رگ سے ہابیل کی گرم و تازہ لہو بن کے ابلا ہے آندھیوں میں تھا اک شور کرب و ...

    مزید پڑھیے

    شام

    دن کو اس کا لہو تھا ارزاں پھر آئی یہ شام غریباں طوق گلے میں، پاؤں بہ جولاں صبر ہے گریاں، ظلم ہے خنداں شام ہوئی کرب و بلا، سناٹا ہر سو ہر سو اس کے لہو کی خوشبو میرے لفظ اور اس کے جادو شام ہوئی

    مزید پڑھیے

    صبح

    آخر شب تھی وہ صحن مسجد میں بے سدھ پڑا سو رہا تھا میں نے اس کو جگایا اٹھ۔۔۔ یہ شہادت کا تکبیر کا وقت ہے دعاؤں کی تسخیر کا وقت ہے وہ اٹھا۔۔۔ میرا قاتل جسے میں نے خود ہی اٹھایا اٹھا۔۔۔ اور محراب مسجد میں میرے لہو سے چراغاں ہوا

    مزید پڑھیے

تمام