Sajjad Baqar Rizvi

سجاد باقر رضوی

سجاد باقر رضوی کی غزل

    زخم کھلے پڑتے ہیں دل کے موسم ہے یہ بہاروں کا

    زخم کھلے پڑتے ہیں دل کے موسم ہے یہ بہاروں کا لالہ و گل کی بات نکالو ذکر کرو انگاروں کا ہم دکھیارے ان کے سہارے چار قدم ہی چل لیں گے چاند کا آخر ہم کیا لیں گے کیا بگڑے گا تاروں کا ایک تبسم اک نگہ خاموش تکلم وہ بھی نہیں کیا ہوگا جینے کا سہارا ہم سے دل افگاروں کا ہم تو ٹھہرے غم کے ...

    مزید پڑھیے

    ہزار شکر کبھی تیرا آسرا نہ گیا

    ہزار شکر کبھی تیرا آسرا نہ گیا مگر یہ ہے دل آدم کہ وسوسہ نہ گیا وہ جب کہ زیست بھی اک فن تھی وہ زمانہ گیا اب ایک چیخ کہ انداز‌ شاعرانہ گیا بہت ہی شور تھا اہل جنوں کا پر اب کے خرد سے آ کے کوئی زور آزما نہ گیا چلی ہے اب کے برس وہ ہوائے شدت برف دیار دل کی طرف کوئی قافلہ نہ گیا بہت ہی ...

    مزید پڑھیے

    فریب تھا عقل و آگہی کا کہ میری فکر و نظر کا دھوکا

    فریب تھا عقل و آگہی کا کہ میری فکر و نظر کا دھوکا جو آخر شب کی چاندنی پر ہوا تھا مجھ کو سحر کا دھوکا میں باغبانوں کی سازشوں کو سیاستوں کو سمجھ چکا ہوں خزاں کا کھا کر فریب پیہم اٹھا کے برق و شرر کا دھوکا شعور پختہ کی خیر ہو جس نے زندگی کو بچا لیا ہے تری نگاہ کرم نما نے دیا تو تھا ...

    مزید پڑھیے

    باقرؔ نشانۂ غم و رنج و الم تو ہو

    باقرؔ نشانۂ غم و رنج و الم تو ہو چھوڑو کچھ اور بات کرو درد کم تو ہو اے کشتۂ خلوص محبت بکار باش لب پر شگفتگی نہ سہی آنکھ نم تو ہو ہر دم رہے حدیث معنی سے ہم کو کام ذکر خدا اگر نہیں ذکر صنم تو ہو کچھ تو پئے شکست سکوت شب الم گریہ سہی فغاں سہی کچھ دم بہ دم تو ہو چشم غزال و حسن غزل کا ...

    مزید پڑھیے

    کیا ملا اے زندگی قانون فطرت سے مجھے

    کیا ملا اے زندگی قانون فطرت سے مجھے کچھ ملا حق بھی تو باطل کی وساطت سے مجھے میرے مالک میں تکبر سے نہیں ہوں سر بلند سر جھکا اتنا ہوئی نفرت اطاعت سے مجھے میں وہ عاشق ہوں کہ خود ہی چومتا ہوں اپنے ہاتھ کب بھلا فرصت ملی اپنی رقابت سے مجھے میں وہ ٹوٹا آئنہ ہوں آپ اپنے سامنے جس میں ہول ...

    مزید پڑھیے

    شعلہ سا کوئی برق نظر سے نہیں اٹھتا

    شعلہ سا کوئی برق نظر سے نہیں اٹھتا اب کوئی دھواں دل کے نگر سے نہیں اٹھتا وہ رونق کاشانۂ دل بجھ سی گئی ہے اب شور کوئی اس بھرے گھر سے نہیں اٹھتا کب طاقت شوریدہ سری سر کو جو ٹکرائیں وہ ضعف ہے اب سر ترے در سے نہیں اٹھتا اس جنبش مژگاں کا ہوں شرمندۂ احساں یہ بار گراں اپنی نظر سے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    زہر ان کے ہیں مرے دیکھے ہوئے بھالے ہوئے

    زہر ان کے ہیں مرے دیکھے ہوئے بھالے ہوئے یہ تو سب اپنے ہیں زیر آستیں پالے ہوئے ان کے بھی موسم ہیں ان کے بھی نکل آئیں گے ڈنک بے ضرر سے اب جو بیٹھے ہیں سپر ڈالے ہوئے چاک سی کر جو ہرے موسم میں اٹھلاتے پھرے خشک سالی میں وہ تیرے چاہنے والے ہوئے بڑھ کے جو منظر دکھاتے تھے کبھی سیلاب ...

    مزید پڑھیے

    تیرے شیدا بھی ہوئے عشق تماشا بھی ہوئے

    تیرے شیدا بھی ہوئے عشق تماشا بھی ہوئے تیرے دیوانے ترے شہر میں رسوا بھی ہوئے زلف تو زلف ہے دنیا سے بھی الجھے ہیں کہ ہم اک بگولا بھی بنے حامل صحرا بھی ہوئے تم تو سن پائے نہ آواز شکست دل بھی کچھ ہمیں تھے کہ حریف غم دنیا بھی ہوئے ہم فقیران محبت کے عجب تیور ہیں رزم کعبہ بھی بنے بزم ...

    مزید پڑھیے

    وہ تیری عنایت کی سزا یاد ہے اب تک

    وہ تیری عنایت کی سزا یاد ہے اب تک آیا تھا خدا یاد خدا یاد ہے اب تک چھلکی ہوئی آنکھوں میں مے سرخ کے ڈورے زلفوں کی وہ لہرائی گھٹا یاد ہے اب تک وہ جسم کی خوشبو کی پر اسرار سی لپٹیں وہ معجزۂ موج صبا یاد ہے اب تک وہ چاندی کے پانی سے دھلے عارض‌ و رخ پر کیفیت صد رنگ حنا یاد ہے اب تک تھی ...

    مزید پڑھیے

    بہ قدر حوصلہ کوئی کہیں کوئی کہیں تک ہے

    بہ قدر حوصلہ کوئی کہیں کوئی کہیں تک ہے سفر میں راہ و منزل کا تعین بھی یہیں تک ہے نہ ہو انکار تو اثبات کا پہلو بھی کیوں نکلے مرے اصرار میں طاقت فقط تیری نہیں تک ہے ادھر وہ بات خوشبو کی طرح اڑتی تھی گلیوں میں ادھر میں یہ سمجھتا تھا کہ میرے ہم نشیں تک ہے نہیں کوتاہ دستی کا گلہ اتنا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5