Sajjad Baqar Rizvi

سجاد باقر رضوی

سجاد باقر رضوی کی غزل

    کیا عشق کا لیں نام ہوس عام نہیں ہے

    کیا عشق کا لیں نام ہوس عام نہیں ہے اندھوں کو اندھیرے میں کوئی کام نہیں ہے تھا جام تو اس آس پہ بیٹھے تھے کہ مے آئے مے آئی تو رندوں کے لئے جام نہیں ہے جیتے ہو تو جینے کا عوض زیست سے مانگو موت اپنا مقدر ہے یہ انعام نہیں ہے کٹ جائے گی یہ رات گزارو کسی کروٹ اب صبح سے پہلے تو کوئی شام ...

    مزید پڑھیے

    گلیاں جھانکیں سڑکیں چھانیں دل کی وحشت کم نہ ہوئی

    گلیاں جھانکیں سڑکیں چھانیں دل کی وحشت کم نہ ہوئی آنکھ سے کتنا لاوا ابلا تن کی حدت کم نہ ہوئی ڈھب سے پیار کیا ہے ہم نے اس کے نام پہ چپ نہ ہوئے شہر کے عزت داروں میں کچھ اپنی عزت کم نہ ہوئی من دھن سب قربان کیا اب سر کا سودا باقی ہے ہم تو بکے تھے اونے پونے پیار کی قیمت کم نہ ہوئی جن نے ...

    مزید پڑھیے

    اکثر بیٹھے تنہائی کی زلفیں ہم سلجھاتے ہیں

    اکثر بیٹھے تنہائی کی زلفیں ہم سلجھاتے ہیں خود سے ایک کہانی کہہ کر پہروں جی بہلاتے ہیں دل میں اک ویرانہ لے کر گلشن گلشن جاتے ہیں آس لگا کر ہم پھولوں سے کیا کیا خاک اڑاتے ہیں میٹھی میٹھی ایک کسک ہے بھینی بھینی ایک مہک دل میں چھالے پھوٹ رہے ہیں پھول سے کھلتے جاتے ہیں بادل گویا دل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 5 سے 5