رنگوں میں زیست کرنے کا سامان دے گیا
رنگوں میں زیست کرنے کا سامان دے گیا گل کو مہک مہک کو گلستان دے گیا محدود سوچ تھی مری دیواروں میں پڑی میرے خیالوں کو نئے وجدان دے گیا چہرہ دکھا گیا ہے مجھے دنیا کا کوئی شیشہ دکھا کے اپنوں کی پہچان دے گیا درس وفا کی کرتا تھا تبلیغ جو ہمیں پڑھنے کو پھر غموں کے وہ دیوان دے ...