مرے سوئے دل کو جگانے لگی ہے
مرے سوئے دل کو جگانے لگی ہے
یہ صحرا میں بادل سجانے لگی ہے
بچھا دو سبھی پھول راہوں پہ اس کے
وہ ساون کی رت ملنے آنے لگی ہے
زمیں سے فلک تک چھلکتا سماں ہے
ہوا میں سمندر اٹھانے لگی ہے
کبھی گرتے پتے کبھی اڑتے پتے
یہ آنگن میں ہلچل مچانے لگی ہے
بڑی خوب صورت ہے بارش مگر یہ
غریبوں کی چھت کیوں گرانے لگی ہے
ٹپکتا ہے پانی شجر سے حجر سے
یہ پتھر بھی دیکھو رلانے لگی ہے
ہوئی گھر سے رخصت ہے بیٹی کی ڈولی
ماں بارش میں آنسو چھپانے لگی ہے
مہکؔ دل تھا آوارہ پنچھی ہوا کا
اسے گھر کا رستہ دکھانے لگی ہے