تو میرے دل میں اتر آ کبھی قیام تو کر

تو میرے دل میں اتر آ کبھی قیام تو کر
ملن سے اپنے کوئی پھر حسین شام تو کر


خموش کیوں ہے تو اب یہ خموشی توڑ بھی دے
بہت اداس ہوں میں آ کوئی کلام تو کر


مجھے پتہ ہے گزرتے ہو روز اس گلی سے
کبھی گزرتے ہوئے ہی ٹھہر سلام تو کر


یہ نفرتیں مٹا تسکین دیکھ پیار کی پھر
محبتوں میں سکوں کتنا ہے یہ عام تو کر


سمیٹ لا تو بہاریں مرے لیے بھی مہک
یہ پھول خوشبو کبھی سب مرے بھی نام تو کر