Saghar Mehdi

ساغر مہدی

نئی غزل کے اہم شاعر

Significant new ghazal poet.

ساغر مہدی کی غزل

    دل بجھا گل ہوئے چراغ بہت

    دل بجھا گل ہوئے چراغ بہت غم کا طوفاں ہے باغ باغ بہت نور کی بھیک تو نہیں مانگی جھلملاتے رہے چراغ بہت شہریاری ہی کج کلاہ نہیں مفلسی بھی ہے بے دماغ بہت جانے کس حال میں ہے تو اے دوست آج روشن ہیں دل کے داغ بہت بیتی یادو ابھی نہ تم مہکو ہے ابھی تنگ صحن باغ بہت کوئی شعلہ انڈیل ساغرؔ ...

    مزید پڑھیے

    شب کے پردے میں اک آواز لگا جاتا ہے

    شب کے پردے میں اک آواز لگا جاتا ہے شمع سی کوئی اندھیرے میں جلا جاتا ہے لفظ و معنی سے جدا صوت و صدا سے محروم غم کی تہذیب میں کچھ یوں بھی کہا جاتا ہے میرے لہجے میں تشکر کے سوا کچھ بھی نہیں تیرے چہرے کا یہ کیوں رنگ اڑا جاتا ہے شکریہ نکہت گل بوئے چمن موج نسیم کوئی جھونکا مرے آنگن میں ...

    مزید پڑھیے

    مرے غموں کا کسی نے خیال بھی نہ کیا

    مرے غموں کا کسی نے خیال بھی نہ کیا کسی سے میں نے مگر عرض حال بھی نہ کیا میں دور تک اسے دیکھا کیا نہ جانے کیوں ٹھہر کے جس نے ذرا سا ملال بھی نہ کیا پھرا میں باغ میں مانند برگ آوارہ شمیم گل نے مگر پائمال بھی نہ کیا حریف ہو گئی دنیا یہ کیا کیا میں نے کسی ہنر میں کچھ ایسا کمال بھی نہ ...

    مزید پڑھیے

    ذہن بے سمت خیالوں کا نشانہ ہے یہاں

    ذہن بے سمت خیالوں کا نشانہ ہے یہاں زندگی جیسے یوں ہی ٹھوکریں کھانا ہے یہاں نغمہ نوحہ ہے یہاں چیخ ترانہ ہے یہاں بات سو ڈھنگ سے کرنے کا بہانہ ہے یہاں قہقہہ اپنی تباہی پہ لگانا ہے یہاں اس خزانہ کو بہر حال لٹانا ہے یہاں کل کتب خانوں کی ہم لوگ بھی رونق ہوں گے ہر حقیقت کے مقدر میں ...

    مزید پڑھیے

    اپنا غم بے لباس کیا کرتے

    اپنا غم بے لباس کیا کرتے دوستوں کو اداس کیا کرتے تیری آنکھیں تھیں میکدہ لیکن اپنے ہونٹوں کی پیاس کیا کرتے ہم کو اپنا لہو ہی پینا تھا پھر بدل کر گلاس کیا کرتے آپ سے حال دل چھپا تو نہ تھا آپ سے التماس کیا کرتے آ نہ جاتے جو باغ میں بھونرے پھول ایسی مٹھاس کیا کرتے لمحہ لمحہ بدلتی ...

    مزید پڑھیے

    ہزار ہم سفروں میں سفر اکیلا ہے

    ہزار ہم سفروں میں سفر اکیلا ہے یہ انتشار کہ اک اک بشر اکیلا ہے گلو بریدہ سبھی ہیں مگر زہے توقیر بلند نوک سناں پر یہ سر اکیلا ہے نہ پتیاں ہیں نہ پھل پھول پھر بھی چھاؤں تو دیکھ سنا تھا میں نے کہ غم کا شجر اکیلا ہے یہ بھیڑ خاک دکھائے گی شان بے جگری یہ اس کا حق ہے جو سینہ سپر اکیلا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ تو وفا کا رنگ ہو دست جفا کے ساتھ

    کچھ تو وفا کا رنگ ہو دست جفا کے ساتھ سرخی مرے لہو کی ملا لو حنا کے ساتھ ہم وحشیوں سے ہوش کی باتیں فضول ہیں پیوند کیا لگائیں دریدہ قبا کے ساتھ صدیوں سے پھر رہا ہوں سکوں کی تلاش میں صدیوں کی بازگشت ہے اپنی صدا کے ساتھ پرواز کی امنگ نہ کنج قفس کا رنج فطرت مری بدل گئی آب و ہوا کے ...

    مزید پڑھیے

    مطلع صبح پہ چھائی ہے سیاہی کیسی

    مطلع صبح پہ چھائی ہے سیاہی کیسی شہر رہ رہ کے یہ لیتا ہے جماہی کیسی قرض جاں آج چکا دیں گے مگر یہ تو بتا زندگی میں نے ترے ساتھ نباہی کیسی مدتیں گزریں وہ گھر چھوڑ چکا ہے پھر بھی ان دریچوں میں ہے بیتاب نگاہی کیسی کتنی محدود تھیں مظلوم سروں کی فصلیں قتل گاہیں تھیں مگر لامتناہی ...

    مزید پڑھیے

    بے لباسی کو بہ کو ایسی نہ تھی

    بے لباسی کو بہ کو ایسی نہ تھی زندگی بے آبرو ایسی نہ تھی اس قدر نازک نہ تھا اس کا مزاج تلخ میری گفتگو ایسی نہ تھی دشت جاں میں ایسا سناٹا نہ تھا یہ فضائے رنگ و بو ایسی نہ تھی لمحہ لمحہ بوجھ بن کر رہ گیا زندگی کی آرزو ایسی نہ تھی رہن کرتے جا کے ہم اپنا ضمیر خواہش جام و سبو ایسی نہ ...

    مزید پڑھیے

    فائدہ ہم کو مٹانے سے بھلا کیا نکلا

    فائدہ ہم کو مٹانے سے بھلا کیا نکلا سر سے سودا نہ گیا دل سے نہ جذبہ نکلا بے مزہ ایسے ہوئے تلخئ حالات سے ہم شہد کا ذائقہ چکھا تو وہ کڑوا نکلا دوست جتنے تھے وہ سب ہو گئے آپس میں حریف کیسی محفل تھی جو نکلا وہ اکیلا نکلا دل کے ہر ٹکڑے میں محفوظ رہا عکس ترا آئنہ ٹوٹ کے بھی آئنہ خانہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2