دل بجھا گل ہوئے چراغ بہت
دل بجھا گل ہوئے چراغ بہت
غم کا طوفاں ہے باغ باغ بہت
نور کی بھیک تو نہیں مانگی
جھلملاتے رہے چراغ بہت
شہریاری ہی کج کلاہ نہیں
مفلسی بھی ہے بے دماغ بہت
جانے کس حال میں ہے تو اے دوست
آج روشن ہیں دل کے داغ بہت
بیتی یادو ابھی نہ تم مہکو
ہے ابھی تنگ صحن باغ بہت
کوئی شعلہ انڈیل ساغرؔ میں
منجمد ہیں دل و دماغ بہت