بے لباسی کو بہ کو ایسی نہ تھی

بے لباسی کو بہ کو ایسی نہ تھی
زندگی بے آبرو ایسی نہ تھی


اس قدر نازک نہ تھا اس کا مزاج
تلخ میری گفتگو ایسی نہ تھی


دشت جاں میں ایسا سناٹا نہ تھا
یہ فضائے رنگ و بو ایسی نہ تھی


لمحہ لمحہ بوجھ بن کر رہ گیا
زندگی کی آرزو ایسی نہ تھی


رہن کرتے جا کے ہم اپنا ضمیر
خواہش جام و سبو ایسی نہ تھی


شعلۂ رخ سے بجھی آنکھوں کی پیاس
آگ میں پانی کی خو ایسی نہ تھی


شہر جانے کیوں ہوا اپنا حریف
شہر میں کچھ آبرو ایسی نہ تھی


کہہ رہا ہوں حال دل اغیار سے
دل کو تیری جستجو ایسی نہ تھی