مطلع صبح پہ چھائی ہے سیاہی کیسی
مطلع صبح پہ چھائی ہے سیاہی کیسی
شہر رہ رہ کے یہ لیتا ہے جماہی کیسی
قرض جاں آج چکا دیں گے مگر یہ تو بتا
زندگی میں نے ترے ساتھ نباہی کیسی
مدتیں گزریں وہ گھر چھوڑ چکا ہے پھر بھی
ان دریچوں میں ہے بیتاب نگاہی کیسی
کتنی محدود تھیں مظلوم سروں کی فصلیں
قتل گاہیں تھیں مگر لامتناہی کیسی
اتفاقات ہیں اے شہر سیاست ورنہ
ہم فقیروں کے لئے مسند شاہی کیسی
کس قدر کاٹ ہے خاموش لبی میں ساغرؔ
جنگ بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی کیسی