مرے غموں کا کسی نے خیال بھی نہ کیا
مرے غموں کا کسی نے خیال بھی نہ کیا
کسی سے میں نے مگر عرض حال بھی نہ کیا
میں دور تک اسے دیکھا کیا نہ جانے کیوں
ٹھہر کے جس نے ذرا سا ملال بھی نہ کیا
پھرا میں باغ میں مانند برگ آوارہ
شمیم گل نے مگر پائمال بھی نہ کیا
حریف ہو گئی دنیا یہ کیا کیا میں نے
کسی ہنر میں کچھ ایسا کمال بھی نہ کیا
شکست جام پہ میں پھوٹ پھوٹ کر رویا
شکستہ شیشۂ دل کا خیال بھی نہ کیا
مری سرشت میں وہ لا شریک تھا کہ مجھے
خدائے صاحب اہل و عیال بھی نہ کیا
ستم کشوں نے ہزاروں سوال سوچے تھے
ستم شعار نے لیکن سوال بھی نہ کیا