اک اجنبی خیال میں خود سے جدا رہا
اک اجنبی خیال میں خود سے جدا رہا نیند آ گئی تھی رات مگر جاگتا رہا سنگین حادثوں میں بھی ہنستی رہی حیات پتھر پہ اک گلاب ہمیشہ کھلا رہا دنیا کو اس نگاہ نے دیوانہ کر دیا میں وہ ستم ظریف کہ بس دیکھتا رہا اک اجنبی مہک سی لہو میں رچی رہی نغمہ سا جان و تن میں کوئی گونجتا رہا اب جا کے ...