Safdar Mirzapuri

صفدر مرزا پوری

صفدر مرزا پوری کی غزل

    ہمارے زخم کی کیا فکر چارہ جو کرتے

    ہمارے زخم کی کیا فکر چارہ جو کرتے تمہیں نے چاک کیا ہے تمہیں رفو کرتے چمن میں آپ سے وہ کھل کے گفتگو کرتے یہ منہ گلوں کا کہ دعوائے رنگ و بو کرتے ملا کے آنکھ وہ ہم سے جو گفتگو کرتے تو ہم بھی کھل کے ذرا شرح آرزو کرتے ہمارے آئنۂ دل سے کوئی بحث نہ تھی تم اپنے مد مقابل سے گفتگو کرتے یہ ...

    مزید پڑھیے

    کیوں خال رخ محبوب کا احساں ہوتا

    کیوں خال رخ محبوب کا احساں ہوتا دل جلا تھا تو چراغ شب ہجراں ہوتا عید ہوتی ترے دیوانے کی آتی جو بہار جھک کے دامن سے ہم آغوش گریباں ہوتا شب مہتاب میں وہ رخ سے الٹتے جو نقاب گرد پھر پھر کے تصدق مہ تاباں ہوتا خیر گزری کہ تری بزم میں بے ہوش تھے سب ورنہ جو ہوش میں آتا وہ پشیماں ...

    مزید پڑھیے

    حسینوں پر کسی کا جب دل ناشاد آتا ہے

    حسینوں پر کسی کا جب دل ناشاد آتا ہے ہمیں اپنی جوانی کا زمانہ یاد آتا ہے ستانے جب کوئی ہم کو ستم ایجاد آتا ہے خدا بخشے دل مرحوم کیا کیا یاد آتا ہے مبارک تجھ کو اے شوق شہادت وقت آ پہنچا عجب انداز سے خنجر بکف جلاد آتا ہے قیامت سے سوا دھومیں مچی ہیں اس کے آنے کی سوئے محشر کسی کا کشتۂ ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو یہ چھیڑ کہ تم سے بھی حسیں ہوتے ہیں

    مجھ کو یہ چھیڑ کہ تم سے بھی حسیں ہوتے ہیں ان کو یہ ضد کہ دکھا دو جو کہیں ہوتے ہیں ان کو ہم سے ہے تعلق نہ ہمیں ان سے غرض اب یہیں ہوتے ہیں شکوے نہ وہیں ہوتے ہیں ان سے بچ جائے جو ایماں تو غنیمت سمجھو خوش نگاہوں میں بہت رہزن دیں ہوتے ہیں لاکھ وہ ناز سے ٹھکرائیں عدو کی تربت یہ عجب بات ...

    مزید پڑھیے

    جب کسی لائق نہیں ہم جب کسی قابل نہیں

    جب کسی لائق نہیں ہم جب کسی قابل نہیں موت بہتر ایسے جینے سے تو کچھ حاصل نہیں کھینچتے ہو کیسی بے دردی سے میرے دل سے تیر چارہ سازو کیا تمہارے پہلوؤں میں دل نہیں اڑ گئی ہے ہجر میں شاہد ہیں تارے چرخ کے یاد جاناں سے ہماری نیند تک غافل نہیں دیکھ کر صورت مری کہتے ہیں میرے چارہ ساز مر ...

    مزید پڑھیے

    ضرور بام پر آئے وہ بے نقاب کہیں

    ضرور بام پر آئے وہ بے نقاب کہیں نظر مجھے نہیں آتا ہے آفتاب کہیں وہاں پہ زخم ہیں مشتاق کب سے باتوں کے زبان تیغ سے ہی دیجئے جواب کہیں ہنسی ہنسی میں تو وہ قتل عام کرتے ہیں قیامت آئے جو آئے انہیں عتاب کہیں لگا کے اس کو کلیجے سے رکھتے اے قاتل جو تیرے تیر کا ملتا ہمیں جواب کہیں شب ...

    مزید پڑھیے

    ہوئی ہے زندگانی دشت غربت میں بسر میری

    ہوئی ہے زندگانی دشت غربت میں بسر میری وطن میں جب نہ پہنچا میں تو کیا پہنچے خبر میری تڑپتا ہوں تو ہو جاتی ہے ظالم کو خبر میری بنی جاتی ہے خود آہ رسا پیغامبر میری بتائے دیتی ہے کیفیت درد جگر ان کو ستم ہے مل گئی ان کی نگاہوں سے نظر میری ترے انصاف کے صدقے تری تقسیم کے قرباں شب عشرت ...

    مزید پڑھیے

    گرائیں گی یہ بجلی جس طرف ان کا گزر ہوگا

    گرائیں گی یہ بجلی جس طرف ان کا گزر ہوگا مری آہوں میں بھی ان کی نگاہوں کا اثر ہوگا نہ سننا تم یہ ٹکڑے ہیں مرے افسانۂ غم کے مری جاں ٹکڑے ٹکڑے سننے والوں کا جگر ہوگا بتا دے اے فلک ایسی بھی کوئی رات آئے گی مری آغوش میں وہ ہوں گے ہالے میں قمر ہوگا تلاش چارہ گر میں عمر اپنی مفت کیوں ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ جب ساقی پہ ڈالی جائے گی

    آنکھ جب ساقی پہ ڈالی جائے گی پھر طبیعت کیا سنبھالی جائے گی چٹکیاں لینے کی وہ کرتے ہیں مشق شوخیوں میں جان ڈالی جائے گی کیوں پریشاں کر رہی ہے باغ میں بوئے گل تجھ سے صبا لی جائے گی ہم ادھر ہیں سامنے ہے آئنہ آنکھ کس کس پر نکالی جائے گی پھول کیسے مر مٹوں کی قبر پر خاک بھی تم سے نہ ...

    مزید پڑھیے

    رکھے ہیں آپ ہاتھ جہاں اب وہاں نہیں

    رکھے ہیں آپ ہاتھ جہاں اب وہاں نہیں ہم کیا بتائیں درد کہاں ہے کہاں نہیں دل لے گئے وہ درد محبت کہاں رہے عبرت کا ہے محل کہ مکیں ہے مکاں نہیں اے برق کس کے واسطے بیتاب آج ہے اس باغ میں مرا تو کہیں آشیاں نہیں قاتل سمجھ کے آج ذرا تیغ ناز کھینچ یہ امتحاں ترا ہے مرا امتحاں نہیں چھوٹیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4