مجھ کو یہ چھیڑ کہ تم سے بھی حسیں ہوتے ہیں

مجھ کو یہ چھیڑ کہ تم سے بھی حسیں ہوتے ہیں
ان کو یہ ضد کہ دکھا دو جو کہیں ہوتے ہیں


ان کو ہم سے ہے تعلق نہ ہمیں ان سے غرض
اب یہیں ہوتے ہیں شکوے نہ وہیں ہوتے ہیں


ان سے بچ جائے جو ایماں تو غنیمت سمجھو
خوش نگاہوں میں بہت رہزن دیں ہوتے ہیں


لاکھ وہ ناز سے ٹھکرائیں عدو کی تربت
یہ عجب بات ہے پامال ہمیں ہوتے ہیں


اب تصور میں بھی تصدیق کا آتا ہے مزہ
جب گماں مٹتے ہیں واللہ یقیں ہوتے ہیں


باتیں پیاری ہیں حسینوں کی ادائیں پیاری
عیب یہ ہے کہ وفادار نہیں ہوتے ہیں


اپنے میخانے کو جنت کا بتاتے ہیں جواب
اتنے بے ہوش خرابات نشیں ہوتے ہیں


اک فقط نام کا ہونا ہے جہاں میں ان کا
نہ مکاں ہوتے ہیں صفدرؔ نہ مکیں ہوتے ہیں