ضرور بام پر آئے وہ بے نقاب کہیں

ضرور بام پر آئے وہ بے نقاب کہیں
نظر مجھے نہیں آتا ہے آفتاب کہیں


وہاں پہ زخم ہیں مشتاق کب سے باتوں کے
زبان تیغ سے ہی دیجئے جواب کہیں


ہنسی ہنسی میں تو وہ قتل عام کرتے ہیں
قیامت آئے جو آئے انہیں عتاب کہیں


لگا کے اس کو کلیجے سے رکھتے اے قاتل
جو تیرے تیر کا ملتا ہمیں جواب کہیں


شب وصال میں صفدرؔ کو تم نہ ترساؤ
اٹھا بھی دو رخ پر نور سے نقاب کہیں