گرائیں گی یہ بجلی جس طرف ان کا گزر ہوگا
گرائیں گی یہ بجلی جس طرف ان کا گزر ہوگا
مری آہوں میں بھی ان کی نگاہوں کا اثر ہوگا
نہ سننا تم یہ ٹکڑے ہیں مرے افسانۂ غم کے
مری جاں ٹکڑے ٹکڑے سننے والوں کا جگر ہوگا
بتا دے اے فلک ایسی بھی کوئی رات آئے گی
مری آغوش میں وہ ہوں گے ہالے میں قمر ہوگا
تلاش چارہ گر میں عمر اپنی مفت کیوں کھوتا
خبر کیا تھی کہ درد دل مرا خود چارہ گر ہوگا
یہ صفدرؔ کہہ رہی ہے عشق میں وارفتگی میری
مٹا لو پہلے گھر اپنا تو ان کے دل میں گھر ہوگا