Saeed Rahmani

سعید رحمانی

سعید رحمانی کی غزل

    غزل کو اپنی میں نے سچ کے بام و در پہ رکھا ہے

    غزل کو اپنی میں نے سچ کے بام و در پہ رکھا ہے مرے شعروں کو اس نے طنز کے خنجر پہ رکھا ہے مناتا ہوں میں اکثر رت جگے راتوں کے آنگن میں شکستہ خواب کا ٹکڑا مرے بستر پہ رکھا ہے بس اتنا سوچ کر تعبیر کی صورت کوئی نکلے پرانے خواب کو میں نے نئے منظر پہ رکھا ہے ستم کی دھوپ سے بچنے کی خاطر ...

    مزید پڑھیے

    خدا کے نام سے آغاز ہر اک کام کرتے ہیں

    خدا کے نام سے آغاز ہر اک کام کرتے ہیں منور اس طرح ہم اپنی صبح و شام کرتے ہیں مسلسل آندھیوں میں جو جلاتے ہیں چراغ اپنا وہی بے شک جہاں میں اپنا روشن نام کرتے ہیں انہیں بچوں کو لڑنا ہے ستم کی دھوپ سے اک دن ابھی جو مامتا کی چھاؤں میں آرام کرتے ہیں عداوت کے سلگتے منظروں کے درمیاں رہ ...

    مزید پڑھیے

    خلوص اپنا لیے ملتے ہیں فن کاری نہیں کرتے

    خلوص اپنا لیے ملتے ہیں فن کاری نہیں کرتے ہم اپنے دوستوں کے ساتھ مکاری نہیں کرتے لٹا دیتے ہیں جان و دل محبت کرنے والوں پر کبھی ہم جذب الفت کی خریداری نہیں کرتے جنہیں عادت ہے گرگٹ کی طرح رنگت بدلنے کی وہ اپنے دوستوں سے بھی وفاداری نہیں کرتے ہمارا سر کبھی جھکتا نہیں ہے غیر کے ...

    مزید پڑھیے

    مٹھاس باتوں میں تم اپنی گھول کر دیکھو

    مٹھاس باتوں میں تم اپنی گھول کر دیکھو کسی سے پیار کے دو لفظ بول کر دیکھو ملے گی تازہ ہواؤں کی خوش گوار مہک دریچے اپنے مکانوں کے کھول کر دیکھو ہو گفتگو کا ارادہ تو یہ ضروری ہے تم اپنی باتوں کو پہلے ہی تول کر دیکھو جو کرنا چاہو بیاں دوسروں کا عیب کبھی تو اپنے دل کو ذرا سا ٹٹول کر ...

    مزید پڑھیے

    اپنے کردار کی پہچان بدل دیتے ہیں

    اپنے کردار کی پہچان بدل دیتے ہیں ایسے کچھ لوگ ہیں ایمان بدل دیتے ہیں جن کی تکمیل کی صورت نہیں نکلی اب تک آج ہم دل کے وہ ارمان بدل دیتے ہیں ساتھ دیتے ہیں جو خوشیوں میں ہماری پیہم دکھ میں نظریں وہی انسان بدل دیتے ہیں ریل گاڑی کے سفر میں یہ ہوا ہے اکثر لوگ بیٹھے ہوئے سامان بدل ...

    مزید پڑھیے

    ہمیشہ جھوٹ جو کہتا رہا سچا نظر آیا

    ہمیشہ جھوٹ جو کہتا رہا سچا نظر آیا برائی جس کی فطرت ہے وہی اچھا نظر آیا ہمارے دور میں قدروں کی پامالی ہوئی ایسی بزرگوں کے مقابل آج کا بچہ نظر آیا وہ دہشت گرد کے کرتوت تھے لیکن زمانے کو دھماکوں کے پس منظر مرا چہرہ نظر آیا سجا کر پیاس ہونٹوں پر قریب آیا جو میں اس کے وہ دریا بھی ...

    مزید پڑھیے

    محرومیت پہ کس لئے کرتے ہو تم قلق

    محرومیت پہ کس لئے کرتے ہو تم قلق اب بڑھ کے چھین لینا ہے ظالم سے اپنا حق میرے خلاف کہتا ہے جو کچھ بھی وہ کبھی ہر لفظ اس کا ہوتا ہے خود اس پہ منطبق سادہ مزاج رکھتی ہے میری ہر اک غزل ہوتا نہیں ہے شعروں میں اک لفظ بھی ادق وہ مسکرا اٹھے تو مجھے اس طرح لگا چہرے پہ جیسے آ گئی رنگینئ ...

    مزید پڑھیے

    وہ کہتا ہے کہ اس کے واسطے خنجر ضروری ہے

    وہ کہتا ہے کہ اس کے واسطے خنجر ضروری ہے نظر کے سامنے اک خونچکاں منظر ضروری ہے بہت سی الجھنیں ہیں آج کل اونچے مکانوں میں سکوں کے واسطے چھوٹا سا مجھ کو گھر ضروری ہے بھروسہ قوت بازو پہ اپنی جو نہیں کرتا محاذ جنگ میں اس کے لئے لشکر ضروری ہے یہی ہے فرق اس کے اور میرے درمیاں ...

    مزید پڑھیے