اپنے کردار کی پہچان بدل دیتے ہیں
اپنے کردار کی پہچان بدل دیتے ہیں
ایسے کچھ لوگ ہیں ایمان بدل دیتے ہیں
جن کی تکمیل کی صورت نہیں نکلی اب تک
آج ہم دل کے وہ ارمان بدل دیتے ہیں
ساتھ دیتے ہیں جو خوشیوں میں ہماری پیہم
دکھ میں نظریں وہی انسان بدل دیتے ہیں
ریل گاڑی کے سفر میں یہ ہوا ہے اکثر
لوگ بیٹھے ہوئے سامان بدل دیتے ہیں
خون دل سے جو جلاتے ہیں عزائم کے چراغ
آمد شب کا وہ امکان بدل دیتے ہیں
آج کے لوگوں میں دیکھی ہے مہارت اتنی
بڑی آسانی سے پہچان بدل دیتے ہیں
جن کو ایجاد کا دعویٰ ہے سخن میں اے سعیدؔ
اپنے شعروں کے وہ ارکان بدل دیتے ہیں