صادق باجوہ کی غزل

    تصورات کی دنیا بسائے بیٹھا ہوں

    تصورات کی دنیا بسائے بیٹھا ہوں خزینہ ہائے محبت لٹائے بیٹھا ہوں تصورات کی دنیا میں محو ہوں اتنا کہ اپنے آپ کو دل سے بھلائے بیٹھا ہوں کسی حسین کا چہرہ ہے سامنے میرے اسی کو قبلہ و کعبہ بنائے بیٹھا ہوں میں میکدے کی بہاروں کو دیکھ کر ساقی کسی کے نشہ پہ نظریں جمائے بیٹھا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ خبر نامہ بر نہیں آتی

    کچھ خبر نامہ بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھک گئے ہم تلاش کرتے ہوئے اپنی منزل نظر نہیں آتی بسری یادوں کا ہے جو دل میں ہجوم رات ٹھہری سحر نہیں آتی جب خودی کا خمار ہو جائے خود سری راہ پر نہیں آتی عکس بر آب ہے نظر لیکن صورت چارہ گر نہیں آتی درد و غم کی فغاں بھی ہے خاموش یہ ...

    مزید پڑھیے

    پھر سے تجدید آرزو کر لیں

    پھر سے تجدید آرزو کر لیں آئیے کچھ تو گفتگو کر لیں زندگی کے حسیں دوراہے پر کچھ تمنائے رنگ و بو کر لیں دوستوں سے نباہ گر چاہیں دشمنوں کو بھی ہم سبو کر لیں جسم و جاں روح کو سنوار تو دیں آنسوؤں سے اگر وضو کر لیں لوگ فرد وفا جفا دیکھیں آئنہ دل کا روبرو کر لیں عیب جو نکتہ چیں عدو ...

    مزید پڑھیے

    تجھے قسم ہے مرا اعتبار رہنے دے

    تجھے قسم ہے مرا اعتبار رہنے دے وفا کے نام سے کچھ اختیار رہنے دے مقام و جبہ و دستار کی نہیں خواہش نثار جاں ہو یہ دل خاکسار رہنے دے نہ جانے کون سی منزل پہ دم نکل جائے دل حزیں پہ محبت کا بار رہنے دے وفا کے نام کو رسوا نہ کر سکے کوئی سرور و لذت غم ہمکنار رہنے دے یہ شوخیاں یہ تفاخر ...

    مزید پڑھیے

    خدمت انساں کی کچھ تدبیر بھی

    خدمت انساں کی کچھ تدبیر بھی کاش ہو اس خواب کی تعبیر بھی بے محابا ہر قدم منزل سے دور پاؤں میں ہو عہد کی زنجیر بھی عظمت رفتہ کی خواہش کر ضرور کر اسے پانے کی کچھ تدبیر بھی حرمت توقیر انساں کر عزیز چھوڑ دے یہ نفرت و تحقیر بھی بانٹیے دکھ درد ساتھی بھی ہوں خوش ہو نئی دنیا کی پھر ...

    مزید پڑھیے

    کب سے موہوم امیدوں کا صلہ رکھا ہے

    کب سے موہوم امیدوں کا صلہ رکھا ہے تیری یادوں کا بہت اونچا دیا رکھا ہے سن کے مجبور تمنا کی سسکتی آہیں لوریاں دے کے اسے دل نے سلا رکھا ہے عمر گزری ہے مگر خود سے جدا کر نہ سکے بھولنے والے تری یاد میں کیا رکھا ہے ساقیا مہر بلب کر کے صلہ کیا پایا حشر کچھ اور خموشی نے بپا رکھا ہے یاد ...

    مزید پڑھیے

    ہر خوشی رنج و غم پہ وار آئے

    ہر خوشی رنج و غم پہ وار آئے جتنے قرضے تھے سب اتار آئے کھا کے ہر وار اپنے سینے پہ راہ و رسم وفا سنوار آئے کون دیکھے بدلتے موسم کو کب خزاں آئے کب بہار آئے آنکھیں خوشیوں سے بھیگتی ہیں ضرور جب کوئی بھولا غم گسار آئے زندگانی کا کچھ بھروسہ نہیں کون جانے کہاں پکار آئے سمجھو بیکار ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2