کب سے موہوم امیدوں کا صلہ رکھا ہے

کب سے موہوم امیدوں کا صلہ رکھا ہے
تیری یادوں کا بہت اونچا دیا رکھا ہے


سن کے مجبور تمنا کی سسکتی آہیں
لوریاں دے کے اسے دل نے سلا رکھا ہے


عمر گزری ہے مگر خود سے جدا کر نہ سکے
بھولنے والے تری یاد میں کیا رکھا ہے


ساقیا مہر بلب کر کے صلہ کیا پایا
حشر کچھ اور خموشی نے بپا رکھا ہے


یاد بھی کر نہ سکے بھول بھی پائے نہ جسے
اک وہی عہد وہ پیمان وفا رکھا ہے


اس کی تعبیر بھلا کون کرے گا صادقؔ
جاگتی آنکھوں نے جو خواب سجا رکھا ہے