تجھے قسم ہے مرا اعتبار رہنے دے
تجھے قسم ہے مرا اعتبار رہنے دے
وفا کے نام سے کچھ اختیار رہنے دے
مقام و جبہ و دستار کی نہیں خواہش
نثار جاں ہو یہ دل خاکسار رہنے دے
نہ جانے کون سی منزل پہ دم نکل جائے
دل حزیں پہ محبت کا بار رہنے دے
وفا کے نام کو رسوا نہ کر سکے کوئی
سرور و لذت غم ہمکنار رہنے دے
یہ شوخیاں یہ تفاخر ریا ہے سب بے سود
حیات کیا ہے فقط مستعار رہنے دے
کہیں تلاش سے اپنی نہ روک دے مجھ کو
یہ وسوسے یہ سوالوں کا بار رہنے دے
نہ نوچ کر اسے سینے سے پھینک دے اپنے
کسی کی یاد کا کچھ کچھ خمار رہنے دے
گناہ گار سہی ہے تو بندۂ صادقؔ
غریق رحمت پروردگار رہنے دے