صدف لکھنوی کی غزل

    شیدائے جستجو ہوں تلاش ثمر نہیں

    شیدائے جستجو ہوں تلاش ثمر نہیں مجھ کو یہ غم نہیں کہ دعا میں اثر نہیں شکوہ کسی سے کیا ہو شکایت کسی سے کیا محو خیال یار ہوں اپنی خبر نہیں اپنا نہیں ہے ہوش مجھے تیری یاد ہے بے خود ہوں بے خودی ہے مگر بے خبر نہیں کوئی کمی ضرور محبت میں ہے کہیں ممکن نہیں کہ درد ادھر ہو ادھر نہیں جب دل ...

    مزید پڑھیے

    حقیقت نہاں تھی عیاں ہو گئی ہے

    حقیقت نہاں تھی عیاں ہو گئی ہے امیدوں کی دنیا جواں ہو گئی ہے تری جستجو میں یہ مجبور ہستی مٹی اس طرح بے نشاں ہو گئی ہے جہاں میں نے سجدے میں سر کو جھکایا وہ منزل ترا آستاں ہو گئی ہے گلوں نے چرائی ہوا نے اڑائی زباں زد مری داستاں ہو گئی ہے صدفؔ میں کہوں کیا کسی سے کروں کیا مری ہی نظر ...

    مزید پڑھیے

    یہ عقیدہ ہے مرا غیب سے ساماں ہوگا

    یہ عقیدہ ہے مرا غیب سے ساماں ہوگا درد کی ٹھیس لگی درد ہی درماں ہوگا آسماں بدلے زمیں بدلے زمانہ بدلے عشق آسان نہ تھا اور نہ آساں ہوگا روشنی تیری جھلکتی ہی رہے گی اے دوست کبھی آنکھوں میں کبھی دل میں چراغاں ہوگا دیکھ تو لوں میں تصور میں تجھے بھی لیکن اور حیران یہ آئینۂ حیراں ...

    مزید پڑھیے

    دے کے دل اپنا کسی قلب میں گھر پیدا کر

    دے کے دل اپنا کسی قلب میں گھر پیدا کر بے زباں بن کے خموشی میں اثر پیدا کر آتش عشق میں انداز شرر پیدا کر غم کے تاریک اندھیروں میں سحر پیدا کر آرزو یار کے جلووں کی اگر پیدا کر تاب جلوہ ہو جسے ایسی نظر پیدا کر وقت برباد نہ کر زاد سفر پیدا کر دور آغاز میں انجام کا ڈر پیدا کر بحر ...

    مزید پڑھیے

    مخاطب چشم ساقی ہو تو پھر آرام ملتا ہے

    مخاطب چشم ساقی ہو تو پھر آرام ملتا ہے نگاہیں منتظر ہیں دیکھیے کب جام ملتا ہے خودی کو چھوڑ دیتا ہے مٹاتا ہے جو ہستی کو اسی کو چین اطمینان اور آرام ملتا ہے محبت میں بہت آسان ہے بدنام ہو جانا بڑی مشکل سے دنیا میں کسی کو نام ملتا ہے چھلک جاتے ہیں پیمانے پتہ چلتا نہیں دل کا نظر سے جب ...

    مزید پڑھیے

    سارا عالم تیرا مرکز کس کو مے خانہ کہیں

    سارا عالم تیرا مرکز کس کو مے خانہ کہیں کس کو ساقی کس کو ساغر کس کو پیمانہ کہیں شمع ہم کس کو کہیں اور کس کو پروانہ کہیں کون ہیں اہل خرد اور کس کو دیوانہ کہیں محو حیرت ہی رہیں ہم یا کہ جاناناں کہیں غیر کا شکوہ کریں یا اپنا افسانہ کہیں گر کوئی بدلے میں دل مانگے تو دیوانہ کہیں ہم ...

    مزید پڑھیے

    یقیں سب کچھ گماں کچھ بھی نہیں ہے

    یقیں سب کچھ گماں کچھ بھی نہیں ہے جہاں میں جاوداں کچھ بھی نہیں ہے فرائض ہیں عمل ہے یا خدا ہے سوا اس کے جہاں کچھ بھی نہیں ہے عقیدت راہ دکھلاتی رہی ہے نشان بے نشاں کچھ بھی نہیں ہے زمیں تیری فلک تیرا خدایا ہمارا تو یہاں کچھ بھی نہیں ہے دل پر درد پہلو میں لئے ہیں کہیں کیسے کہ ہاں ...

    مزید پڑھیے

    غم ترا غم بھی ہے تسکین کا پیغام بھی ہے

    غم ترا غم بھی ہے تسکین کا پیغام بھی ہے ہے اگر عشق میں تکلیف تو آرام بھی ہے آمد و رفت کا ہے کھیل تماشا سارا زندگی بھی ہے نفس موت کا پیغام بھی ہے یاد محدود نہیں روزہ نمازوں پہ فقط دن بھی ہے رات بھی ہے صبح بھی ہے شام بھی ہے یہ بتاتے ہیں لفافے پہ ہمارے آنسو جذبۂ عشق میں ڈوبا ہوا ...

    مزید پڑھیے