یقیں سب کچھ گماں کچھ بھی نہیں ہے
یقیں سب کچھ گماں کچھ بھی نہیں ہے
جہاں میں جاوداں کچھ بھی نہیں ہے
فرائض ہیں عمل ہے یا خدا ہے
سوا اس کے جہاں کچھ بھی نہیں ہے
عقیدت راہ دکھلاتی رہی ہے
نشان بے نشاں کچھ بھی نہیں ہے
زمیں تیری فلک تیرا خدایا
ہمارا تو یہاں کچھ بھی نہیں ہے
دل پر درد پہلو میں لئے ہیں
کہیں کیسے کہ ہاں کچھ بھی نہیں ہے
خلا ہے ایک سینے میں ہمارے
یہیں کچھ تھا جہاں کچھ بھی نہیں ہے
تمنا کس لئے ہے زندگی کی
اگر عمر رواں کچھ بھی نہیں ہے
تلاش مستقل ہی زندگی ہے
یقیں ہے یہ گماں کچھ بھی نہیں ہے
تصور آپ کا لایا وہاں پر
جہاں پر آسماں کچھ بھی نہیں ہے
ہماری عقل پر پردہ پڑا ہے
حقیقت میں نہاں کچھ بھی نہیں ہے
صدفؔ کے دل میں ہے وحدت کا جلوہ
مگر ورد زباں کچھ بھی نہیں ہے